Friday, 29 November 2024


یونان کا عظیم فلسفی اورسائنسداں دمقراط

ایمز ٹی وی (خصوصی رپورٹ) یونان کے خوبصورت جزیرے تھریس پہ آب درہ نامی بستی آباد ہے۔ زمانہ قدیم میں یہ بھرا پُرا شہر تھا جو اب قصبے میں تبدیل ہو چکا۔ یہی شہر ہے جہاں دو ڈھائی ہزار سال قبل دمقراط (Democritus) ، پروتا غورث (Protagoras) اور انکسارخس (Anaxarchus) جیسے عظیم یونانی حکما نے جنم لیا ۔ ان میں سب سے زیادہ شہرت دمقراط ہی نے پائی۔

 

دمقراط 460 قبل مسیح میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ امیر جاگیردار تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب مشہور ایرانی بادشاہ ‘ زرکیز آب درہ پہنچا تو دمقراط کے باپ ہی نے اس کا استقبال کیا ۔ اس امر سے عیاں ہے کہ وہ شہر میں معزز حیثیت رکھتا تھا۔ زرکیز شہر میں بعض ایرانی عالم بھی چھوڑ گیا۔ انہی کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے دمقراط علوم کا عاشق بن گیا۔

 

آب درہ تاجروں اور دولت مندوں کا شہر تھا۔ ان کا مقصد حیات صرف پیسہ کمانا تھا۔ وہ علم‘ فلسفے اور سائنس کو بیکار شے سمجھتے ۔ لیکن خدا کا کرنا یہ ہوا کہ دمقراط انہی ’’بیکار‘‘باتوں کی طرف راغب ہو گیا۔ اسے پیسے اور سامانِ آسائش و راحت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ بیس سال کا تھا کہ اس کا باپ مر گیا۔ وراثت میں اسے 2400کلو سونا ملا۔ یوں وہ ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر بہت مالدار ہو گیا۔ تاہم وہ توعلم کی پیاس کا مارا تھا۔ چناںچہ اس نے سارا سونا فروخت کر ڈالا ۔ جو رقم ملی‘ اس سے دمقراط نے پوری دنیا کی سیاحت کا منصوبہ بنا لیا۔ 

 

یوں نت نئے علمی اسرارکی تلاش میں دور قدیم کا یہ ابن بطوطہ نگری نگری گھومنے لگا ۔ اس زمانے میں سفر کی سہولیات ناپید تھیں۔ لہٰذا دمقراط کو دوران راہ کئی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ لیکن وہ نوجوان اور جوش و جذبے سے بھرپور تھا ‘ سفر کی تمام تکالیف جھیل گیا۔ دمقراط بابل‘ مصر‘ ایران اور ہندوستان تک گیا اور اپنے علمی ذوق و تجسس کی پیاس بجھائی۔ اس کا کہنا تھا: ’’میں ایران کا بادشاہ بننے کے بجائے علم کی ایک نئی بات جاننا زیادہ پسند کرتا ہوں۔‘‘

 

اسفار کے دوران وہ طبیعات ‘کیمیا‘ ریاضی‘ فلسفہ‘ فنون لطیفہ غرض ہر شعبہ علم کی مبادیات سے واقف ہوا۔ اس کی کئی نامور علما و حکما سے ملاقات بھی ہوئی۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس نے گھوم پھر کر اتنے زیادہ داناؤں سے کسب علم کیا جس کی نظیر نہیں ملتی۔

 

جب وہ سارا پیسا خرچ کر بیٹھا‘ تو دمقراط اپنے آبائی شہر واپس لوٹ آیا۔ اب وہ قلاش اور ادھیڑ عمر انسان تھا۔ آب درہ کے لوگ اسے دیوانہ سمجھنے لگے کیونکہ اس نے اپنا سارا سرمایہ جہاں گردی میں صرف کر دیا تھا۔ اور اب بھی سارا وقت سوچ بچار اور علمی موشگافیوں میں ’’ضائع‘‘ کر دیتا۔ دوسری طرف دمقراط ہم وطنوں کی ہوس زر و زمین کوا یسی نظروں سے دیکھتا جن میں حقارت تھی اور رحم بھی! بہرحال لوگوں کے پراپیگنڈے کی وجہ سے دمقراط کا امیر بھائی بھی اسے پاگل سمجھنے لگا جس نے اسے پناہ دی تھی۔ چنانچہ اس نے مشہور یونانی طبیب‘ بقراط کوآب درہ بلوا لیا۔

 

بقراط نے دمقراط کا طبی معائنہ کیا۔ یونانی حکیم اس کی دیوانگی کا علاج کرنے آیا تھا مگر دمقراط کے علم و فضل سے متاثر ہو کر اپنے ممدوح کا معتقد بن گیا۔ اس نے واپس ایتھنز جاتے ہوئے آب درہ کے لوگوں سے کہا: ’’ جو دمقراط کو دیوانہ سمجھتا ہے‘ اسے خود اپنے دماغ کا علاج کرانا چاہیے۔‘‘ اسی واقعے کے بعد شہر میں دمقراط کی مخالفت ختم ہو گئی۔ اب وہ آرم و سکون سے زندگی بسر کرنے لگا۔ لیکن دمقراط جب بھی زر‘ زن‘ زمین کی ہوس میں گرفتار لوگوں کو الٹے سیدھے کام کرتے دیکھتا‘ تو قہقہے لگانے لگتا۔ وہ انہیں احمق مادہ پرست قرار دیتا اور خوب ہنستا۔ اسی انوکھی روش کے باعث دمقراط تاریخ انسانی میں ’’ہنستا فلسفی‘‘ بھی کہلاتا ہے۔

 

دمقراط کی اکثر تحریریں ضائع ہو چکیں‘ لیکن ان کا بیشتر حصہ ارسطو کی تصانیف میں محفوظ ہے ۔ وہ عیاں کرتی ہیں کہ دمقراط نے اخلاقیات، روحانیت اور سائنس پر علمی تحریریں لکھیں اور ان میں نئے نکات بیان کیے۔ اس کا کہنا تھا کہ ایک قانع انسان ہی حقیقی مسرت پاسکتا ہے۔ سائنس میں دمقراط کا اہم کارنامہ یہ ہے کہ اس نے مادے کے سب سے چھوٹے ذرے ’’ایٹم‘‘ کی تشریح تفصیل سے بیان کی۔ گو وہ اس نظریے کا خالق نہیں کہ کائنات کی ہر شے ایٹموں سے بنی ہے۔ یہ نظریہ ایک غیر معروف یونانی فلسفی ‘ لیوکیپوس (Leucippus) کی تخلیق ہے۔

 

دمقراط اسی لیو کیپوس کا شاگرد تھا ۔جب وہ نگری نگری علم حاصل کر کے آب درہ پہنچا تو اس پر سائنسی علوم کا پورا جہا ن معنی کھل چکا تھا ۔ چنانچہ اپنی کثیر علمی معلومات کے بل بوتے پر اس نے ایٹمی نظریہ تفصیل سے پیش کیا۔ اس زمانے میں خورد بین تھی نہ دیگر سائنسی آلات‘ مگر بقراط محض اپنی قوت مشاہدہ اور تجربات کے باعث یہ انقلابی نظریہ وضع کرنے میں کامیاب رہا۔ اس ایٹمی نظریئے کی بنیاد پر انیسویں صدی میں طبیعات وکیمیا نے فروغ پایا اور جدید سائنس نے جنم لیا۔ اسی واسطے دمقراط کو ’’بابائے سائنس‘‘ کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ یوں مال ودولت تج کر دنیائے علم کی خاک چھاننے والے یونانی فلسفی کا نام رہتی دنیا کے لیے امر ہو گیا۔

 

یاد رہے‘ لفظ ’’ایٹم‘‘ بھی دمقراط ہی کا ایجاد کردہ ہے۔ یونانی میں تقسیم کرنے کو ٹوم (TOM) کہتے ہیں۔ ہند آریائی زبانوں میں ’’آ‘‘ کلمہ نفی ہے۔ لہٰذا ہندی لفظ ’’اٹل‘‘ کے معنی ہیں: ’’نہ ٹلنے والا‘‘۔ اسی طرح ایٹم کا مطلب ہے : ’’نہ تقسیم ہونے والا۔‘‘ گو اب جدید سائنس دریافت کر چکی کہ ایٹم بھی کئی ذروں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔

 

دمقراط کے بعض مشعل راہ اقوال درج ذیل ہیں:

٭… خوشی مال دولت میں نہیں بستی اورنہ ہی سونے میں، یہ روح کے اندر پائی جاتی ہے۔

٭… لوگ ہماری نیکیوں کے بہ نسبت ہمارے گناہ زیادہ یاد رکھتے ہیں۔

٭… اپنی خواہشات اور ضرورت کم کر کے ایک غریب بھی امیر بن سکتا ہے۔

٭… انسان کو چاہیے کہ وہ دوسروں کے بجائے اپنی غلطیوں کی طرف زیادہ دھیان دے۔

Share this article

Leave a comment