ایمزٹی وی(تعلیم/حیدرآباد)سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں سرکاری یونیورسٹی کافوری قیام کھٹائی میں پڑگیا ہے۔
گورنرسندھ محمد زبیرنے صوبے کی سرکاری جامعات کے ترمیمی بل 2018کے حوالے سے کیے گئے اعتراض کے بعد کالی موری کالج حیدرآبادکویونیورسٹی کادرجہ دیے جانے کے بل پر بھی تقریباًوہی اعتراضات لگادیے ہیں جوجامعات کے ترمیمی بل پرلگائے گئے ہیں۔
حکومت سندھ کے ذرائع کاکہناہے کہ گورنرسندھ محمدزبیرکویونیورسٹی کے قیام پراعتراض نہیں بلکہ وہ اس میں تعاون کے خواہشمندہیں تاہم اس بل میں شامل شقوں پرگورنرسندھ کی ’’آبزرویشنز‘‘ ہیں کیونکہ حیدرآبادکی پہلی سرکاری یونیورسٹی کے لیے بنائے گئے بل میں بھی حکومت سندھ نے گورنرکے تمام تراختیارات ختم کرتے ہوئے ان کی حیثیت ایک’’نمائشی چانسلر‘‘ کے طور پرکردی ہے۔
حکومت سندھ کے ایک اعلیٰ افسرنے میڈیا کو بتایا کہ حیدرآباد یونیورسٹی کے ایکٹ کے مطابق گورنربحیثیت چانسلرجلسہ تقسیم کی صدارت کے علاوہ محض پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری تفویض کیے جانے کی منظوری دے سکتے ہیں جبکہ وائس چانسلر، قائم مقام وائس چانسلر، رئیس کلیات اورڈائریکٹرفنانس کی تقرری کااختیار بطورکنٹرولنگ اتھارٹی وزیراعلیٰ کے پاس ہے جس سے گورنرسندھ محمد زبیر نے اختلاف کیا اوراس بل پردستخط نہیں کیے۔
مزیدبرآں حیدرآباد یونیورسٹی کے لیے بنائے گئے ایکٹ میں سندھ کی سرکاری جامعات کے ترمیمی ایکٹ 2018کی طرزپراس کی سینڈیکٹ،سینیٹ،سلیکشن بورڈمیں بھی سرکاری افسران کو شامل کیاگیاہے جبکہ یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ میں وفاقی ایچ ای سی کے بجائے سندھ ایچ ای سی کونمائندگی دی گئی ہے۔