بھوتوں کا معاملہ ہمیشہ سے ہی انسانی ذہن کے لیے تجس آمیز دلچسپی کا حامل رہا ہے
بھوت بحری جہاز
7 نومبر1872 ءکو (mary celeste)نامی ایک بہری جہاز کا کپٹن اپنی بیوی دوسالہ بچی اور عملے کے7 ارکان
کے ساتھ نیویارک سے اٹلی کے سفر پر روانہ ہواایک ماہ بعد منزل پر پہنچنا تھا لیکن ایسا نہ ہوا ۔
اس دوران ایک برطانوی بحری جہاز (DEIGRATIA ) میری سلیسٹ کو بحراوقیانوس کے پانیوں میں بہتے ہوئے
دیکھا ڈئے گراٹیا کا عملہ میری سلیسٹ تک پہنچا تاکہ اگر وہاں کسی کو مدد کی ضرورت ہے تو فراہم کی جاسکے مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے
کہ پورا جہاز خالی پڑاہواتھا حالانکہ جہاز پر تجارتی سمیت 6 مہینے کے کھانے پینے کا سامان اور عملے کے ضرورت کی دیگر چیزیں بدستوں لدی
ہوئیں جبکہ لائف ہوٹس غائب تھیں ۔
(Sir Arthur Conan Doyle) نے اس واقعے سے متاثر ہوکر ایک شارٹ سٹوری لکھی
جس میں اس جہاز کے عملے کے غیاب کو بحری قذاقوں کی کارروائی بتایا گیا جنہوں نے جہاز کے عملے کو لوٹ مار کے لیے قتل کردیا تھا
لیکن اگر حملہ لوٹ مار کے لیے ہی کیا گیا تھا اور جہاز کو بحری قزاقوں نے لوٹا تھا تو اس پر موجود سامان کیسے محفوظ رہا ؟
اس معمے کے بارے میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ جہاز میں پانی بھرنے کا علم ہونے پر کپتان نے عملے کو لائف بوٹس کے ذریعے جہاز چھوڑنے اور جان بچانے کا حکم دیا تاکہ وہ کسی زمینی ساحل تک پہنچ سکیں لیکن حقیقت کیا ہے؟ یہ کوئی نہیں جانتا
جدید ممی ۔
2016 میں جب فلپائن کے مچھیرے سمندر میں تیرتے ایک تباہ شدہ جہاز تک پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ اس جہاز میں ایک جرمن ملاح کی حنوط شدہ لاش موجود تھی جو 20 سال قبل لاپتہ ہوگیا تھا
یعنی 20 برس سے وہ نعش اس جہاز میں سمندر کی سیر کرتی پھر رہی تھی
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جرمن ملاح (Manfred Fritz Bajorat) کے ایک دوست کا دعویٰ ہے
کہ وہ 2009ء سے 2016ءتک اس کے ساتھ فیس بک پر رابطے میں تھا
گو اس نے اسے کبھی یہ نہیں بتایا کہ وہ کہاں ہے
بہرحال اگر وہ کسی حادثے کا شکار ہوگیا تھا تو یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک سال کے عرصے میں سمندری مرطوب و نمکین ہوا کسی لاش کو حنوط کردینے کی صلاحیت تو رکھتی ہے
لیکن جب اس لاش کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس کی موت صرف ایک ہفتے قبل ہی ہوئی تھی