گزشتہ برس 13 جنوری کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاون میں سابق ایس ایس پی ملیر راو انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا تھانقیب اللہ محسود کی موت کے بعد ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جس میں انہیں ایک ماڈل کے انداز میں دیکھا گیا اور پولیس کی جانب سے اسے دہشت گرد قرار دے کر مارا گیا تو سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی،اور لوگوں نے اےک تحریک کی شکل مےں ملک بھر مےں احتجاج اور مزاہرے شروع کردیے۔سپریم کورٹ نے بھی جعلی مقابلے کا نوٹس لیا اور پھر ریٹائر ہوجانے والے سابق ایس ایس پی ملیر راو انوار سمیت دیگر کے خلاف دو مقدمات درج کیے۔بعدازاں تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راو انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیاچیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت اب بھی جاری ہے جب کہ دونوں کمیٹیوں نے نقیب اللہ کے خلاف کسی بھی قسم کے ثبوت ملنے کی تردید کی ہے سابق ایس ایس پی ملیر راو انوار اور ان کی ٹیم کی گرفتاری کے لیے بہت کوششیں کی گئیں اور کچھ اہلکار گرفتار بھی ہوئے تاہم راو انوار احمد نے خود ہی ڈرامائی انداز میں سپریم کورٹ پہنچ کر گرفتاری دی جس کے بعد انہیں کراچی منتقل کیا گیا۔تاہم ایک برس بعد بھی اس کیس کو اب تک حتمی انجام تک نہیں پہنچایا جاسکا ہے اور تحقیقات اب بھی جاری ہیں لیکن اس کی رفتار بہت س±ست ہے
قیب اللہ کے ا س دنیائے فانی سے کوچ کرے اےک سال بیت گے
- 13/01/2019
- K2_CATEGORY بین الاقوامی خبریں
- 3200 K2_VIEWS
Leave a comment