Thursday, 28 November 2024


اقرا یونیورسٹی کےزیراہتمام سوشل انٹرپرینیورشپ پرسیشن منعقد

 کراچی: اقرا یونویرسٹی میں انٹرپریونیرشپ سیمینا سیشن کاانعقاد کیاگیا۔ سیش میں معروف سماجی رہنما اور اخوت کے سربراہ ڈاکٹرمحمد امجد ثاقب نے کہا کہ سوشل انٹرپرینیورشپ کا آغاز خیرات سے ہوتا ہے جس کا مقصد بے غرض ہو کر دوسروں کی مدد کرنا ہوتا ہے۔انسان کو اپنے خوابوں کی تکمیل کا بھی سوچنا چاہیئے،جو انسان اپنی خواہشات پوری نہیں کرسکتا وہ دوسروں کی بھی نہیں کرسکے گا۔آپ کا مقصد محض دولت کمانا نہیں بلکہ لوگوں کی فلاح بھی ہوتا ہے۔ایک انٹرپرینیو رایک ویژن لے کر آتا ہے، وہ ایک خواب دیکھتا ہے ۔ویژن آپ کی تعلیم،مشاہدہ ،تجربہ اور معاشرتی حالات کا مجموعہ ہوتا ہے ۔ انٹرپرینیورایک باغی اور تبدیلی کا سب سے بڑا علم بردار بن کر ابھرتا ہےآپ کے گفتار اور کردار میں یکسانیت ہونی چاہیئے،ہمارے ملک میںہر شعبے میں لیڈرز کا فقدان ہے، جھوٹ اور بددیانتی سے بچنا لازم ہے۔

 

محنت اور جستجو کسی بھی بزنس کی کامیابی کا اہم راز ہے۔محنت کو اپنی شخصیت کا حصہ بنائیں کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔مستقل مزاجی اور شفافیت بھی کسی کاروبار کیلئے ناگزیر ہیں۔جو انسان خود اپنا احتساب نہیں کرتا، دنیا اس کا احتساب کرتی ہے لہذا خود احتسابی کو اپنانا بھی آپ کی کامیابی کی ضمانت ہوگا۔اکیلا لیڈر خود کچھ نہیں کرسکتا، ٹیم بنانا اور ان سے کام لینا ہی ایک اچھے لیڈر کی نشانی ہے۔ ایک اچھا لیڈر ناکامیاں اپنے ذمے لیتا ہے جبکہ کامیابی کا کریڈٹ ٹیم کو دیتا ہے۔انٹرپرینیورلگے بندھے راستوں پر نہیںچلتا بلکہ اپنی منزل اور راستے خود چنتا ہے

۔ان خیالات کا اظہار انھوں نے اقرا یونیورسٹی کے زیر اہتمام سوشل انٹرپرینیورشپ پرسیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر وسیم قاضی ،اساتذہ اور طلبہ کی بڑی تعداد موجود تھی۔ڈاکٹر امجد نے اپنے ادارے اخوت کے متعلق طلبہ کو بتاتے ہوئے کہا کہ اخوت 97 ارب روپوں کے بلا سود قرضے دے چکی ہے اور اس سفر کا آغاز دس ہزار روپوں کے قرض سے ہوا تھا۔ہم نے 25 لاکھ خاندانوں کو قرضے دئیے اور ہر خاندان نے یہ قرضے واپس کئے۔یہی خاندان اب دوسروں کو قرضے دے رہے ہیں اور انھوں نے ہمیں اپنے قرضے واپس کرنے کے ساتھ ساتھ 36 کروڑ کے عطیات بھی دے چکے ہیں، ہم دنیا کا سب سے بڑا قرض حسنہ دینے والا ادارہ بن چکے ہیں۔ہم ایک جامعہ بھی بنا رہے ہیں جس میں طلبہ کو مفت تعلیم دی جائے گی

Share this article

Leave a comment