لاہور: جذبات و احساسات کی ترجمانی کرنے والے باکمال شاعر "منیر نیازی" کی آج 13 ویں برسی منائی جارہی ہے منیر نیازی کے انتقال کو 13 برس بیت گئے مگر آج بھی وہ اپنے مداحوں کے دلوں میں زندہ و تابندہ ہیں۔
منیر نیازی 9 اپریل 1928 کو ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اردو اور پنجابی میں بہت خوبصورت شاعری کی، منیر نیازی کی شاعری اُن کے مشاہدے کی عکاس تھی، منیر نیازی کی شاعری جہاں روایتوں سے بغاوت کی عکاس ہے وہیں وہ حسنِ کائنات ، گھنیری زُلفوں اور جھیل جیسی آنکھوں کی تعریف میں بھی رطب اللسان رہے ۔اُنھوں نے بے شمار گیت، غزلیں اور نظمیں لکھیں۔
منیر نیازی بیک وقت شاعر، ادیب اور صحافی تھے، منیر کا کلام کبھی کسی نظریہ کے زیرِ اثر نہیں رہا وہ خود نئی راہیں تلاشنے کے عادی تھے۔
پاکستان ٹیلی ویزن سے بھی اُن کا طویل تعلق رہا، ہجر و وصال کی ترجمانی کرتی اُن کی غزلوں کو بہت سے مایہ ناز گلوکاروں سے خوبصورت انداز میں پیش کیا۔
منیر نیازی کا تخلیقی سرمایہ 3پنجابی اور 13 اُردو مجموعوں پر محیط ہے ، منیر نیازی کا کلام آج بھی ادب کے طالبعلموں پر سوچ کی نئی راہیں وا کرتا ہے۔
منیر نیازی کی ادبی خدمات پر 1992 میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے اُن کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی دیا گیا اور 2005 میں حکومتِ پاکستان نے اُنھیں ستارہ امتیاز سے نوازا ۔
26 دسمبر 2006 کو لاہور میں منیر ملکِ عدم سدھار گئے اور آسمانِ ادب ایک درخشاں ستارے سے محروم ہو گیا۔
یہ جبرِ مرگِ مسلسل ہی زندگی ہے منیر جہاں میں اس پہ مگر اختیار کس کا تھا