Friday, 29 November 2024


سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کی سلورجوبلی کی تقریب

کراچی: سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کی سلور جوبلی تقریبات کے اختتام پر ایک گرانڈ ڈنر کا اہتمام کیا گیا جس میں عمائدین کے علاوہ مشہور کرکٹر کامران اکمل، سلمان بٹ اور سرِ عام کے اینکر پرسن اقرار الحسن نے بطورِ خاص شرکت کی ۔ تقریب کے مہمانِ خصوصی ممتاز سماجی رہنما اور صنعتکار سردار یاسین ملک تھے ۔ تقریب میں علیگ محسنین کو خراجِ تحسین بھی پیش کیا گیا ۔
 
اس موقع پر تقریرکرتے ہوئے سرداریاسین ملک نے کہا کہ گولی دینے پر یوں تو لوگ ناراض ہوتے ہیں یا برا مان جاتے ہیں لیکن میں ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہوں جو گولی دیتا ہے تو لوگ نہ صرف خوش ہوتے ہیں بلکہ پیسے بھی دیتے ہیں ۔ گولی سے میری مراد ٹیبلیٹ tablet ہے ۔ میری دوائیاں بنانے کی فیکٹری ہے ۔
 
انھوں نے کہا کہ میں نے زندگی میں کچھ نہیں کیا، اگر کچھ کیا ہے تو صرف لوگوں کی خدمت کی ہے ۔ آج میں جس مقام پر ہوں اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ میں نے اللہ کی راہ میں دل کھول کر خرچ کیا ہے ۔ اگر آپ اللہ کی راہ میں خرچ کریں گے تو اللہ آپ کو بہت دے گا ۔
 
سرسید یونیورسٹی کے چانسلرجاوید انوار نے کہا کہ علیگ بانیان نے سرسید یونیورسٹی اور علیگڑھ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی شکل میں جو وراثت چھوڑی ہے، ہم اس کو آگے بڑھا رہے ہیں اور دونوں ادارے مستحکم بنیادوں پر کام کر رہے ہیں اور ترقی کی راہ پر گامزن ہیں ۔ حال ہی میں سرسید یونیورسٹی میں سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سینٹر آف ایکسیلنس فار سائبر سیکوریٹی قائم کیا گیا ہے ۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا سینٹر ہے جو نئی ٹیکنالوجی سے طلباء کو جوڑے گا ۔
 
انھوں نے کہا کہ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ سرسید یونیورسٹی کے المنائی اپنی مادرِ علمی کی تعمیر و ترقی سے دلچسپی رکھتے ہیں اور اپنی یونیورسٹی کے لیے کچھ کررہے ہیں ، اور کچھ کرنا چاہتے ہیں ۔ المنائی کے تعاون سے ہم یونیورسٹی میں ٹیسٹنگ لیب کو فعال بنانے جارہے ہیں جو یونیورسٹی کے لیے ایک منافع بخش یونٹ ہوجائے گا ۔ اسی طرح سے دوسرے المنائی یونیورسٹی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں جس کا یونیورسٹی خیر مقدم کرتی ہے ۔
 
وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ولی الدین نے کہا کہ سرسید یونیورسٹی ایک جدید اور بہترین ادارہ ہے جو سرسید احمد خان کے فلسفہ پر عمل پیرا ہے ۔ سرسید یونیورسٹی کا آغاز دو شعبوں سے ہوا جس میں ۰۰۲ طلباء اور طالبات زیرتعلیم تھے لیکن آج اس ادارے میں ۲۱ شعبوں میں لگ بھگ ۰۰۰۶ اسٹوڈنٹس زیرِ تعلیم ہیں ۔ اسی طرح سرسید یونیورسٹی کا المنائی کلب ۰۰۰۹۱ گریجویٹس پر مشتمل ہے ۔ ہائر ایجوکیشن نے سرسید یونیورسٹی کو 92.88% اسکور حاصل کرنے پر "W" کیٹیگری تفویض کی ۔ اسی طرح سندھ کی چارٹر انسپیکشن اینڈ ایویولیشن کمیٹی کی رینکنگ میں سرسید یونیورسٹی نجی شعبے کی انجینئرنگ جامعات میں سرِ فہرست ہے ۔ سرسید یونیورسٹی کے شعبہ اورِک ORIC نے مہران یونیورسٹی اور دیگر یوروپی ممالک کے اشتراک سے متعدد Erasmus انٹرنیشنل کریڈٹ موبیلیٹی فنڈنگ پروگرام حاصل کئے ۔
 
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے اعزازی جنرل سیکریٹری محمد ارشد خان نے کہا کہ ترقی، خوشحالی اور روشن خیالی کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے ۔ تعلیم کی اہمیت ان لوگوں سے پوچھیں جو تعلیم سے محروم ہیں ۔ ۷۵۸۱ء کی جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد ۲۶۸۱ء میں سرسید احمد خان نے جس درسگاہ کی پہلی اینٹ رکھی وہ درحقیقت تشکیلِ پاکستان کی ابتدا تھی ۔
 
سرِعام کے اینکر پرسن اقرارلحسن نے کہا کہ آج اتنے سارے لوگوں کو ایک ساتھ شیروانی میں دیکھ کر بہت اچھا لگ رہا ہے ۔
 
قبل ازیں رجسٹرار سید سرفراز علی نے خیر مقدمی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ ۴۹۹۱ء سے ۹۱۰۲ء تک ایک طویل سفر تھا جس میں کئی نشیب و فراز آئے اور ہ میں متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ۔ لیکن سرسیداحمد خان کی تعلیمات ہمارے لیے ہمیشہ مشعلِ راہ رہیں اور یہی ہماری ترقی اور کامیابی کی ضمانت ہے ۔

Share this article

Leave a comment