Friday, 29 November 2024


غیر ملکی طلبہ کے تشدد کا نشانہ بننے کا امکان کم ہوتا ہے، رپورٹ

ایمز ٹی وی (اسپیشل رپورٹ) جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی کی ایک جائزہ رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم بین الاقوامی طلبہ کے لیے مقامی طالب علموں کے مقابلے میں تشدد کا نشانہ بننے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ امریکی ماہر سماجیات کے اس نئے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ امریکی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بین الاقوامی طلبہ میں سے خاص طور پر طالبات کے لیے اپنے مقامی ساتھیوں کے مقابلے میں تشدد کے حملوں کا نشانہ بننے کا امکان کم تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی سب سے بڑی وجہ بین الاقوامی طلبہ کی طرز زندگی اور سرگرمیوں کا انتخاب ہو سکتی ہیں۔

جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی اور ویسٹ جارجیا یونیورسٹی سے منسلک ماہر جرمیات نے امریکہ کالج ہیلتھ ایسوسی ایشن کے ایک جائزے کے اعدادوشمار کا استعمال کیا ہے اور بین الاقوامی طلبہ پر تشدد کے واقعات کا جائزہ لیا ہے اور اس خطرے کا موازنہ مقامی طالب علموں کے ساتھ کیا ہے ۔ یہ مضمون جریدہ 'انٹرپرسنل وائلنس' میں شائع ہوا ہے جس سے ظاہر ہوا کہ مجموعی طور مقامی طلبہ کے مقابلے میں بین الاقوامی طلبہ کا یونیورسٹی کا تجربہ مختلف ہے۔ جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی سے وابستہ ماہر جرمیات اور پرنسپل تفتیش کار لیاہ ای ڈیگل نے کہا کہ بین الاقوامی طالب علموں میں یونیورسٹی کے پہلے سال میں داخلہ لینے کا امکان کم تھا۔

نتائج کے مطابق بین الاقوامی طلبہ میں شراب نوشی اور ڈرگ کا استعمال کم پایا گیا اسی طرح ان میں جزوی معذوری کا امکان بھی کم تھا۔ اعدادوشمار کے تجزیہ سے محققین کو پتا چلا کہ امریکی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم بین الاقوامی طالبات میں غیر جنسی حملوں کا نشانہ بننے کا امکان نمایاں طور پر کم تھا۔ پروفیسر ڈیگل نے کہا کہ طلباء اور طالبات دونوں کے لیے یونیورسٹی کا تجربہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں کی توقعات ،سماجی تعلقات اور مواقعوں میں بنیادی فرق ہے جو ان کے اجنبیوں کے ساتھ تعلقات ہونے اور پرخطر عوامی مقامات پر آنے جانے کے امکانات سمیت اس بات پر اثر کرتا ہےکہ وہ کہاں کب اور کس کے ساتھ وقت گزاریں گے۔

پروفیسر ڈیگل نے کہا کہ ''ہمیں پتا چلا کہ بین الاقوامی طلبہ مقامی طالب علموں کے مقابلے میں روزمرہ کی تفریحی سرگرمیوں میں ملوث نہیں پائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ تشدد کی کاروائیوں کا کم نشانہ بنتے ہیں''۔ پروفیسر ڈیگل کے مطابق شراب نوشی کو یونیورسٹی میں ایک عام رویہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن یہ طلبہ کے تصورات اور فیصلوں پر اثرا نداز ہوتی ہے اور خطرے میں ردعمل کو سست کرتی ہے اسی طرح یونیورسٹی کے طلبہ کی رات کی سرگرمیاں اور تفریحی طور پر منشیات کا استعمال کرنا انھیں انتقامی حملوں کے خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ہماری تحقیق سے ظاہر ہوا کہ ''بین الاقوامی طالبات دیگر طلبہ کے مقابلے میں تشدد سے زیادہ محفوظ تھیں'' انھوں نے مزید کہا کہ ''اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ اس گروپ کے طلبہ مخصوص یونیورسٹی کے تجربے سے الگ تھلگ تھے جو انتقامی کاروائیوں کو جنم دیتا ہے اور یہ سبق آموز ہے''۔

 

Share this article

Media

Leave a comment