ایمز ٹی وی (لاہور) نامور افسانہ نگار‘ شاعر‘ ناقد‘ کالم نگار‘ محقق‘ مترجم اور صحافی جناب احمد ندیم قاسمی کی آج سالگرہ ہے۔ احمد ندیم قاسمی ایک ہمہ جہت ادبی شخصیت تھے ان کی تصانیف کا دائرہ ہر صنف ادب تک پھیلا ہوا ہے، ان کا اصل نام احمد شاہ تھا اور وہ 20 نومبر 1916ءکو انگہ ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے تھے۔ احمد ندیم قاسمی کا شمار انجمن ترقی پسند مصنّفین کے بانیوں میں ہوتا تھا اور اس حوالے سے انہوں نے کئی مرتبہ قید و بند کی صعوبت بھی برداشت کی۔ حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ‘ ستارہ امتیاز اور نشان امتیاز سے نوازا گیا۔ پاکستان رائٹرز گلڈ نے انہیں تین مرتبہ آدم جی ادبی انعام عطا کیا تھا۔ بزم فروغ اردو ادب قطر نے انہیں اپنے ایوارڈ سے نوازا تھا اور اکادمی ادبیات پاکستان نے انہیں 1997ءکا کمال فن ایوارڈ اور2007ءمیں شائع ہونے والے بہترین شعری مجموعے کا علامہ محمد اقبال ایوارڈ عطا کیا تھا۔انہیں پنجاب کا پریم چند بھی کہا جاتا تھا۔ ان کے شعری مجموعوں میں دھڑکنیں‘ رم جھم‘ جلال و جمال‘ شعلہ گل‘ دشت وفا‘ محیط‘ دوام، لوح خاک‘جمال اور ارض وسما، افسانوی مجموعوں میں چوپال‘ بگولے‘ طلوع و غروب‘ آنچل‘ آبلے‘ آس پاس‘ درودیوار‘ سناٹا‘ بازار حیات‘ برگ حنا‘ سیلاب و گرداب،گھر سے گھر تک‘ کپاس کا پھول‘ نیلا پتھراور کوہ پیما‘ تنقیدی مضامین کے مجموعوں میں تہذیب و فن،پس الفاظ اور معنی کی تلاش اور خاکوں کے دو مجموعے میرے ہم سفراور میرے ہم قدم شامل ہیں۔ وہ پھول‘ تہذیب نسواں‘ ادب لطیف‘ نقوش‘ سویرا‘ فنون اور روزنامہ امروز کے مدیر رہے اورمتعدد اخبارات میں کالم نگاری بھی کرتے رہے۔ 1974ءسے اپنی وفات تک مجلس ترقی ادب کے ناظم کی حیثیت سے خدمات انجام دےتے رہے۔
جناب احمد ندیم قاسمی کی وفات 10جولائی 2006ءکولاہور میں ہوئی اورلاہور ہی میں ملتان روڈ پر ملت پارک کے نزدیک شیخ المشائخ قبرستان میں ان کا جسد خاکی دفنا یا گیا۔
ان کا ایک شعر ملاخطہ فرمائیں
"زندگی شمع کی مانند جلاتاہوں ندیمؔ
بجھ تو جاؤں گا مگر صبح تو کر جاؤں گا"