Friday, 29 November 2024


غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نہیں کی جارہی، خواجہ آصف

ایمز ٹی وی(اسلام آباد) ملک کے مختلف شہروں میں گرمی کی شدت بڑھنے کے ساتھ ہی بجلی کی طلب بھی بڑھ گئی، جس کے باعث ملک میں بجلی کا شارٹ فال 5 ہزار میگاواٹ کے قریب پہنچ گیا۔

ملک کے مختلف شہروں میں درجہ حرارت بڑھنے کے ساتھ ہی بجلی کی طلب بھی بڑھ کر 21 ہزار 200 میگاواٹ تک جاپہنچی ہے، جبکہ اس وقت بجلی کی پیداوار 16 ہزار 548 میگاواٹ ہے۔

وزارت پانی و بجلی نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک کی بجلی کی پیداوار 17 ہزار 120 میگاواٹ کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکی ہے جو گزشتہ سال تک 16 ہزار 866 میگاواٹ تھی، ملک میں بجلی کی طلب 17 ہزار 900 میگاواٹ ہے جس کے بعد بجلی کا شارٹ فال 900 میگاواٹ سے بھی کم رہ گیا ہے۔

وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے دعویٰ کیا کہ ملک میں کہیں بھی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نہیں کی جارہی، تاہم انہوں نے بجلی کی فراہمی کو مستحکم کرنے میں مدد کے طور پر صارفین سے سحر و افطار کے اوقات میں ایئر کنڈیشنرز نہ چلانے کی درخواست کی۔

تاہم اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (آئیسکو) بار بار راولپنڈی کے چند علاقوں جیسے چکلالہ اور کورال میں، آپریشنل مشکلات کے باعث پاور بریک ڈاؤن کے حوالے سے اپڈیٹس جاری کرتی رہتی نظر آرہی ہے۔

اسی طرح پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) کے صارفین کو بھی رمضان کے پہلے دو روزوں کے دوران بجلی کے طویل تعطل کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں پشاور کے لیے رمضان سے قبل والے لوڈشیڈنگ شیڈول کو بحال کرنا پڑا۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ بدھ کی صبح تک بجلی کی مجموعی پیداوار 15 ہزار 829 میگاواٹ جبکہ طلب 19 ہزار 787 میگاواٹ تھی، جس کے باعث بجلی کا شارٹ فال 3 ہزار 950 میگاواٹ تھا۔

لیکن صورتحال اس وقت بدلی جب دوپہر تک پیداوار 16 ہزار 548 میگاواٹ جبکہ طلب 21 ہزار 153 میگاواٹ تک جاپہنچی، جس کے باعث شارٹ فال بھی بڑھ کر 4 ہزار 605 میگاواٹ ہوگیا۔

وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابس شیر علی کا بھی قومی اسمبلی کے اجلاس میں کہنا تھا کہ ملک کے کسی بھی حصے میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نہیں کی جارہی۔

رکن قومی اسمبلی میاں عتیق شیخ کے توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دیتے ہوئے عابد شیر علی کا کہنا تھا کہ بجلی کی زیادہ لوڈشیڈنگ صرف ان علاقوں میں کی جارہی ہے جہاں کا ریکوری ریٹ کم ہے، جبکہ جن علاقوں کا ریکوری ریٹ 60 فیصد سے کم ہے وہاں 18 گھنٹے تک کی بھی لوڈ شیڈنگ کی جاسکتی ہے۔

Share this article

Leave a comment