ایمزٹی وی(ٹیکنالوجی)سوشل میڈیا پر پھیلنے والی افواہیں بعض اوقات بہت نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ ایک حالیہ ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ آفیشل اکاؤنٹس، جیسے سرکاری ایجنسیز، ایمرجینسی سے متعلق ادارے، میڈیا اور کمپنی، جو کسی افواہ کے حوالے سے مرکزی کردار کی حامل ہوں، اپنے ردعمل سے ٹوئٹر پر پھیلائی جانے والی افواہوں کا زور توڑ سکتی ہیں اور غلط بیانی کا تدارک کرسکتی ہیں۔ اس تحقیق میں شامل محققین نے ٹوئٹر پر پھیلائی جانے والی دو حالیہ افواہوں کا تجزیہ کیا، جن میں سے ایک آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مسلمانوں کے ایک محلے میں چھاپے کی جھوٹی اطلاع تھی اور دوسری میکسیکو کے ایک طیارے کے اغوا کی افواہ تھی۔ یہ دونوں افواہیں متعلقہ اداروں کی جانب سے ٹوئٹر پر مؤثر طریقے سے آنے والی تردید کے بعد دم توڑی گئیں۔ اس کیس اسٹیڈی نے دنیا بھر کی حکومتوں اور مختلف اداروں کو یہ سبق دیا ہے کہ وہ کس طرح سوشل میڈیا پر پھیلنے والی افواہوں کے بحران سے نمٹ سکتے ہیں۔محققین نے اپنی تحقیق کے ذریعے یہ جانا کہ مذکورہ دونوں افواہوں کے پھیلانے اور ان کی تردید کرنے والے ٹوئٹس کی اکثریت ٹوئٹر کے بہت کم اکاؤنٹس سے ٹوئٹ کی گئی تھی، جس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ٹوئٹر کا ایک اکاؤنٹ بھی کسی اطلاع کو پھیلانے کے حوالے سے کس قدر اثرورسوخ کا حامل اور اہم ہوتا ہے۔ یہ تحقیق بتاتی ہے کہ افواہیں پھیلانے کا رویہ ’’بریکنگ نیوز‘‘ اکاؤنٹس کی طرف سے سامنے آتا ہے، جو خبریں اور اطلاعات دینے کا جنون رکھتے ہیں، لیکن اس حوالے سے صحافتی معیار اور اخلاقیات سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ چناں چہ وہ کسی اطلاع کی تصدیق کیے بغیر اسے جلدبازی میں آگے بڑھادیتے ہیں۔ یہ تحقیق یہ حقیقت سامنے لاتی ہے کہ سوشل میڈیا پر پھیلنے والی افواہوں کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور متعلقہ حکومتوں اور اداروں کے ان کی تردید اور کسی بھی واقعے اور صورت حال کے کے بارے میں حقائق سامنے لانے کے لیے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر فوری طور پر متحرک ہوجانا چاہیے۔
Leave a comment