ایمز ٹی وی (ٹیکنالوجی)1990ء کے عشرے میں جب کمپیوٹر کا استعمال عام ہونے لگا تھا، اس وقت ڈیسک ٹاپ مشینوں میں ہارڈ ڈرائیوز کی گنجائش زیادہ سے زیادہ تیس چالیس گیگا بائٹ تک ہوا کرتی تھی۔ گھریلو صارفین کے لیے دس جی بی کی ہارڈ ڈسک بھی کافی سے زیادہ ہوتی تھی۔ اب کئی سو جی بی کی ہارڈ ڈراؤز عام دستیاب ہیں، مگر یہ بھی ناکافی ثابت ہونے لگی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ کمپیوٹر، ٹیبلٹ پی سی، اور اسمارٹ فونز وغیرہ کا استعمال بڑھنے کے ساتھ ساتھ معلومات ذخیرہ کرنے کی ضرورت بھی بڑھتی چلی گئی ہے۔ عام صارفین کی نسبت تجارتی اداروں بالخصوص ڈیٹا سینٹرز کو زیادہ گنجائش والی ہارڈ ڈرائیوز درکار ہوتی ہیں۔ انٹرنیٹ پر سفر کرنے والے ڈیٹا کی مقدار جس رفتار سے بڑھ رہی ہے، اس کے پیش نظر ماہرین کا کہنا ہے کہ معلومات ذخیرہ کرنے کے موجودہ روایتی طریقے مستقبل میں ناکافی ثابت ہوں گے۔ موجودہ ٹیکنالوجیز کی بنیاد پر روایتی ہارڈ ڈرائیوز کی گنجائش ایک حد تک بڑھائی جاسکتی ہے۔ اسی کے پیش نظر کمپیوٹر انجنیئر اور سائنس داں ڈیٹا اسٹوریج کے نئے طریقے دریافت کرنے پر تحقیق کررہے ہیں۔ اس ضمن میں ڈی این اے ان کی خصوصی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہ مالیکیول ہر جان دار کا بنیادی جزو ترکیبی ہے جس کے اندر اس کی نشوونما، آئندہ لاحق ہونے والے امراض سمیت بیشتر معلومات ذخیرہ ہوتی ہیں۔ سائنس داں برسوں سے اس بات پر غور کررہے ہیں کہ اگر کسی طرح ڈی این اے کے طرز پر معلومات کو ذخیرہ کرنے میں کام یابی حاصل کی جاسکے تو ڈیجیٹل ڈیٹا اسٹوریج کے میدان میں انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں اہم پیش رفت کرتے ہوئے ماہرین نے ڈی این کے طرز پر نہیں بلکہ جان داروں کے ڈی این اے ہی میں معلومات ذخیرہ کرنے کا طریقہ وضع کرلیا ہے۔ ماہرجینیات سیتھ شپمین اور جیف نویلا کی سربراہی میں ہارورڈ یونی ورسٹی کے سائنس دانوں پر مشتمل ٹیم نے بیکٹیریا کے ڈی این اے میں کمپیوٹر کوڈ نقل کرنے کا طریقہ وضع کرلیا ہے۔ اس تیکنیک کی کام یاب آزمائش کے دوران بیکٹیریا کے ڈی این اے میں کمپیوٹر کوڈ کام یابی سے داخل یا نقل کیا گیا۔ اس عمل سے بیکٹیریا کے خلوی افعال بالکل متأثر نہیں ہوئے۔ اہم بات یہ ہے کہ بیکٹیریا نے ذخیرہ کردہ معلومات اگلی نسل کو بھی منتقل کیں یوں ایک طرح سے ڈیٹا کا بیک اپ حاصل ہوگیا۔ سائنس دانوں کے مطابق وہ بیکٹیریا کے ڈی این اے میں محض 100 بائٹ کے مساوی ڈیٹا منتقل کرنے میں کام یاب ہوئے، مگر انھیں قوی امید ہے کہ مزید تحقیق کے بعد جراثیم میں ڈیٹا کی زیادہ مقدار ذخیرہ کی جاسکے گی۔ دوران تحقیق ماہرین جینیات نے ڈی این اے کے ان حصوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جو CRISPR/Cas system کہلاتے ہیں اور بیشتر بیکٹیریا میں موجود ہوتے ہیں۔ یہ سسٹم سادہ انداز میں کام کرتے ہیں: جب بیکٹیریا پر کوئی وائرس حملہ آور ہوتا ہے تو یہ اس وائرس کے ڈی این اے کا کچھ حصہ اس کے ’ جسم‘ سے علیٰحدہ کرکے اپنے جینوم کے ایک مخصوص حصے میں داخل کرلیتے ہیں۔ اس حصے میں جسے بیکٹیریا کی لیبارٹری بھی کہا جاسکتا ہے، وائرس کے ڈی این اے کا تجزیہ ہوتا ہے، اور پھر مستقبل میں اس سے بچاؤ کی ترکیب وضع کرلی جاتی ہے۔ یہ عمل ایسے ہی ہے جیسے حملہ آور دشمن کے ہتھیار کے بارے میں جان کر اس کا توڑ تیار کرلیا جائے۔ چوں کہ بیکٹیریا وائرل ڈی این اے کو اپنے جینیاتی کوڈ میں نقل کرلیتے ہیں اس لیے یہ کوڈ ان کی نسلوں میں بھی منتقل ہوجاتا ہے۔ سائنس دانوں نے دوران تجربات وائرل ڈی این اے کی شکل میں کمپیوٹر کوڈ سے بیکٹیریا پر ’ حملہ ‘ کیا۔ ردعمل کے طور پر بیکٹیریا نے کوڈ کا متعلقہ حصہ علیٰحدہ کرکے اپنے جینوم میں داخل کرلیا۔ محققین کا کہنا تھا اگر بہ یک وقت بیکٹیریا کی بڑی تعداد پر کمپیوٹر کوڈ سے حملہ کیا جائے تو پھر ٹکڑوں کی صورت میں تمام ڈیٹا مختلف بیکٹیریا میں ذخیرہ ہوجائے گا۔ علاوہ ازیں مختلف اقسام کے بیکٹیریا میں ڈیٹا کی ذخیرہ کاری کی صلاحیت بھی مختلف ہوتی ہے۔ تجربات کے دوران سائنس دانوں نے ای۔کولی نامی بیکٹیریا میں ایک سو بائٹ ڈیٹا ذخیرہ کیا، مگر کچھ بیکٹیریا جیسے سلفولوبس میں ہزاروں بائٹ ڈیٹا محفوظ کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے سنتھیٹک انجنیئرنگ کے ذریعے ذخیرہ کاری کی گنجائش میں کئی گنا اضافے کا امکان موجود ہے۔ بہرحال ڈیٹا اسٹوریج کا یہ طریقہ کب اور کیسے عام ہوگا؟ اور کیا یہ کام یاب ثابت ہوگا؟ اس بارے میں تحقیقی ٹیم کی جانب سے کچھ نہیں بتایا گیا۔