ایمزٹی وی(صحت)دلچسپ بات یہ ہے کہ اگلے دو سال میں یہ آلہ عام دستیاب ہوسکے گا، اس آلے کو جسم پرباندھنا پڑے گا اوراسٹیکر کی طرح کے پیچ جسم سے چپکے ہوں گے جو ضرورت کے وقت انسولین جسم کے اندر خارج کردے گا، اس وقت ٹائپ ٹو ذیابیطس کے مریض انسولین کی کمی پر اپنے جسم میں انسولین انجکشن لگاتے ہیں اور روزانہ سوئیوں سے بدن کو چھیدتے ہیں ۔
تاہم الیکٹرانک لبلبے کی بدولت ذیابیطس کے مریضوں کی زندگی میں قدرے آسان ہوسکے گی یہاں تک کہ بعض مریضوں کو دن میں چار سے پانچ مرتبہ انسولین لینا پڑتی ہے لیکن واضح رہے کہ مریضوں کے خون میں شکر کی مقدار کم ذیادہ ہوتی رہتی ہے جس کے لیے بار بار گلوکوز لیول چیک کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مصنوعی لبلبے کو یونیورسٹی آف کیمبرج کے ماہرین نے تیار کیا ہے وہ دو آلات کا مجموعہ ہے یعنی ایک آلہ خون میں گلوکوز کی مقدار نوٹ کرتا اور اور دوسرا انسولین خارج کرتا ہے اور پورا نظام ایک دوسرے سے منسلک ہوتا ہے۔ جب اسے شوگر کے مریضوں پر آزمایا گیا تو اکثریت نے اسے بہت پسند کیا کیونکہ مصنوعی لبلبے نے بلڈ ٹٰیسٹ اور انسولین کے نظام کو خودکار کردیا اور ذیابیطس کو بہت اچھی طرح قابو کیا جاسکتا ہے۔ مزید آزمائش کے بعد مصنوعی لبلبے کی تیاری کے بعد 2017 میں امریکا اور 2018 میں یورپ میں یہ آلات عام دستیاب ہوں گے۔