ایمزٹی وی(ٹیکنالوجی)امریکا کی بایوٹیکنالوجی کمپنی نے ریشم کے کیڑوں کو اس قابل بنالیا ہے کہ وہ مکڑی کا ریشہ (اسپائیڈر سلک) تیار کرسکیں۔ مکڑی کا جالہ بظاہر بہت کمزور ہوتا ہے لیکن اس کا نہایت باریک ریشہ، اسی قدر باریک فولادی تار سے بھی زیادہ مضبوط اور لچکدار ہوتا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں اور ماہرین اس بارے میں گزشتہ کئی برسوں سے جانتے بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے چند عشروں سے مکڑی کا ریشہ صنعتی پیمانے پر تیار کرنے کی کوششیں جاری ہیں تاکہ اسے بلٹ پروف جیکٹوں میں استعمال کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں کئی تجربات کیے گئے اور مکڑیوں کی فارمنگ تک کی گئی، لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا۔ ریشم کے کیڑوں کی طرح مکڑیوں کی فارمنگ کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں لیکن وہ سب کی سب بدترین ناکامیوں سے دوچار ہوئیں۔ علاوہ ازیں اگر کسی طرح یہ مشکل کام کر بھی لیا جائے تو مکڑیوں سے حاصل ہونے والا ریشہ (اسپائیڈر سلک) اس قدر باریک ہوگا کہ وہ بلٹ پروف جیکٹوں میں استعمال کے قابل نہیں ہوگا۔ 2011 میں یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم کے ماہرین کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے ریشم کے کیڑوں سے مکڑی کا ریشہ حاصل کرنے کا طریقہ ایجاد کرلیا۔ ماہرین نے سب سے پہلے مکڑی میں ریشہ بنانے والا جین دریافت کیا اور اگلے مرحلے میں اسے ریشم کے کیڑوں کے انڈوں میں پیوند کردیا۔ متعدد کوششوں کے بعد بالآخر وہ ریشم کے ایسے کیڑے تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے جو مکڑی کا ریشہ تیار کرتے تھے۔ اس تکنیک کو تجارتی پیمانے پر فروغ دینے کے لیے کریگ بایوکرافٹ لیبارٹریز کے نام سے کمپنی بھی قائم کرلی گئی۔ اس ادارے میں اگلے چند سال کے دوران ریشم کے ان کیڑوں کو اس قابل بنایا گیا کہ وہ زیادہ موٹائی والا مکڑی کا ریشہ تیار کرسکیں اور اسی بنیاد پر ان کی مختلف اقسام علیحدہ علیحدہ کردی گئیں۔ اب یہ کمپنی ’’ڈریگن سلک‘‘ کے نام سے مکڑی کے ریشے (اسپائیڈر سلک) کی پیداوار میں مصروف ہے۔ گزشتہ ہفتے امریکی فوج نے اس کمپنی کو ڈریگن سلک سے تیار شدہ آزمائشی تھیلیاں (بیلسٹک شوٹ پیکس) تیار کرنے کا آرڈر دیا ہے۔ اگر یہ تھیلیاں ٹیسٹ فائرنگ کے دوران اتنی ہی سخت جان ثابت ہوئیں کہ جس کا دعوی بایوکرافٹ نے کیا ہے تو اس کمپنی کو پہلی کھیپ کے لیے 10 لاکھ امریکی ڈالر کا ٹھیکا دے دیا جائے گا۔
Leave a comment