اتوار, 05 مئی 2024


ذیابیطس کی چند ابتدائی نشانیاں

ایمز ٹی وی(صحت)ماہرین طب نے کہاہے کہ ذیابیطس کے70 فیصدسے زائڈمریض ایسے ہیں جن کے پاؤں زخم اور انفیکشن کی وجہ سے خراب ہوجاتے ہیں جس کے باعث زخمی پاؤں کو کاٹنا پڑتا ہے تاہم اس سرجری کے 5 سال کے اندرموت واقع ہوجاتی ہے۔

آئندہ 24 سالوں میں پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ 40لاکھ سے تجاوزکرجائے گی جبکہ اتنے ہی لوگوں کے اس مرض سے متاثرکے امکانات بڑھ جائیں گے، اس موقع پرعالمی ذیابطیس فیڈریشن کے نائب صدر ڈاکٹر اختر حسین، کانگریس کے کو چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر عبدالباسط اور ماہر امراض ذیابیطس پروفیسر زمان شیخ، ڈاکٹر زاہد میاں، ڈاکٹر ذوالفقار علی جی عباس مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ماہرین امراض ذیابیطس اورشعبہ طب سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرز موجود تھے، کانگریس میں پیروں کو زخموں سے بچانے والے مخصوص جوتے بنانے کا عملی مظاہرہ کیا گیا، یہ جوتے کمپیوٹرائزڈ مشینوں اور تھری ڈی پرنٹرزکی مدد سے ہرمریض کے پیروں کی ساخت کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے جاتے ہیں اور پاکستان میں پہلی بار انھیں تیار کیا گیا ہے، یہ مخصوص جوتے بقائی ذیابطیس انسٹی ٹیوٹ میں ہی تیار کیے جا رہے ہیں۔

ماہر امراض ذیابیطس ڈاکٹر زاہد میاں نے کہا کہ شوگر کے مریضوں کو اپنے پیروں کی حد سے زیادہ حفاظت کرنی چاہیے اورکسی بھی معمولی تکلیف ، زخم یاسن ہونے کے صورت میں فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے، عالمی ذیابیطس فیڈریشن کے صدر پروفیسر عبدالصمد شیرا کا کہنا تھاکہ پاکستان میں اس وقت2بیماریاں وبائی صورت اختیار کر چکی ہیں جن میں موٹاپا اور ذیابطیس شامل ہیں۔

ڈاکٹر زاہد میاں نے کہا کہ طرز ندگی سے ہونے والی ذیابطیس ایک خاموش مرض ہے جس کا ابتدائی 6برس میں پتہ ہی نہیں چلتا اور مریض کو اس وقت اپنی بیماری کاعلم ہوتاہے جب وہ ناقابل علاج ہوجاتی ہے،باربارپیشاب آنا، پیاس لگنا، حلق خشک ہوجانا اور اسی طرح کی دوسری علامات کا طرز زندگی سے ہونے والی ذیابطیس سے قطعاََ کوئی تعلق نہیں ہے ،پاکستان میں عام طور پر پائی جانے والی ذیابطیس ٹائپ ٹو ہے جو ایک خاموش قاتل اور خفیہ بیماری ہے جو موٹاپے ، بے تحاشہ کھانے اور کسی قسم کی ورزش نہ کرنے اور کام نہ کرنے کے نتیجے میںلاحق ہوتی ہے، اس سے بچاؤ کا واحد حل کم کھانا اور زیادہ چلنا ہے۔

عالمی ذیابطیس فیڈریشن کے نائب صدر اور بنگلا دیشی ماہر امراض ذیابطیس ڈاکٹر اختر حسین کا کہناتھا کہ دنیا کے65فیصد ذیابطیس کے مریض برصغیر پاک و ہندمیں رہتے ہیں جہاںیہ بیماری وبائی صورت اختیارکرچکی ہے ، ان کا کہنا تھا کہ یورپی ممالک نے اپنے وسائل اور اپنے علم و ہنر کی بنیاد پر اس وباء پر قابو پا لیا ہے مگر ترقی پذیر ممالک میں نہ ہی اتنے وسائل ہیں اور نہ ہی اتنی ترقی کی ہے کہ وہ ان امراض پر فوری قابو پا سکیں ،بیماری سے بچاؤ کا واحد حل لوگوں کو آگاہ کرنا ہے تاکہ وہ اپنے اور اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو اس بیماری سے بچانے کیلیے اپنے طرز زندگی میں تبدیلی لائیں۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment