اتوار, 24 نومبر 2024


پانی ابالنے کے لیے اب چولھا نہیں جلانا پڑے گا

ایمز ٹی وی (مانیٹرنگ ڈیسک) پانی اُبالنے کی ضرورت پیش آئے تو ہم پتیلا بھر کر چُولھے پر رکھ دیتے ہیں۔ یہ چولھا گیس کا بھی ہوسکتا ہے اور اس کام کے لیے برقی ہیٹر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ گاؤں دیہات میں آگ جلانے کے لیے لکڑیوں اور اُپلوں کا استعمال کیا جاتا ہے، مگر اب سائنس دانوں نے ایک ایسی حیرت انگیز شے ایجاد کرلی ہے، جسے پانی میں ڈال دیا جائے تو کچھ ہی دیر بعد وہ اُبلنے لگتا ہے۔
بس شرط یہ ہے کہ پانی سے بھرا پتیلا یا کوئی بھی برتن دُھوپ میں رکھا ہوا ہو۔ یعنی وہ ایجاد، دھوپ میں اپنا کام دکھائے گی۔ آگ کے بغیر پانی کو اُبال ڈالنے والی یہ انوکھی شے ایک اسفنج ہے جسے مشہور زمانہ میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ( ایم آئی ٹی ) کے سائنس دانوں اور انجنیئروں پر مشتمل ٹیم نے تخلیق کیا ہے۔ اس کی تخلیق میں سائنس دانوں نے فوم، حرارت کے موصل مادّے، اور ببل ریپ ( پلاسٹک میٹیریل جس پر بُلبلے اُبھرے ہوتے ہیں اور جو نازک اشیا کی محفوظ پیکنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ) کا استعمال کیا۔
سائنس دانوں کو یقین ہے کہ ان کی ایجاد گھریلو صارفین کے لیے ہی سود مند ثابت نہیں ہو گی بلکہ صنعتی میدان میں بھی اس کا استعمال کئی مراحل آسان کر دے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اسفنج گھروں سے زیادہ صنعتوں کے لیے زیادہ کارآمد ثابت ہوگا۔ صنعتوں میں پانی کو بھاپ بنانے کے لیے عام طور پر گیس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دھوپ سے بھی یہ کام لیا جاتا ہے، جس کے لیے مہنگے عدسے اور آئینے لگائے جاتے ہیں تاکہ وہ شمسی شعاعوں کو پانی پر مرتکز کرسکیں۔ دونوں ہی طریقے مہنگے ہیں، تاہم سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ اسفنج کی مدد سے پانی گرم کرنے پر کئی گنا کم لاگت آئے گی۔
بنیادی طور پر یہ اسفنج تانبے کا ایک ٹکڑا ہے جس میں برقی مقناطیسی طیف کے بیش تر حصوں کو جذب کرلینے کی صلاحیت پیدا کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب اسے دھوپ میں رکھا جاتا ہے تو یہ حرارت جذب کرتا ہے۔ جب اس پر سے پانی گزارا جاتا ہے تو حرارت کی وجہ سے وہ گرم ہونے لگتا ہے، یہاں تک کہ بھاپ بن جاتا ہے۔ اسفنج کے اوپر ببل ریپ کی تہ چڑھائی گئی ہے جس میں سے گزر کر شمسی شعاعیں اسفنج پر مرتکز ہوجاتی ہیں اور اس کے درجۂ حرارت میں اضافہ کرتی ہیں۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment