ایمز ٹی وی (صحت) پاکستان میں تقریباً 5 کروڑ افراد مختلف قسم کے ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں بالغ افراد کی تعداد ڈیڑھ سے ساڑھے تین کروڑ کے قریب ہے اور یہ کل آبادی کا 10 سے 20 فیصد حصہ بنتا ہے۔ کراچی پریس کلب میں دماغی صحت کے موضوع پر ہونے والے مذاکرے میں آغاز خان یونیورسٹی (اے کے یو)کے محکمہ نفسیات کی چیئرپرسن ڈاکٹر عائشہ میاں نے کہا کہ ’تقریباً 2 کروڑ بچوں کو ذہنی امراض کا علاج کرنے والے ڈاکٹرز کی توجہ کی ضرورت ہے‘۔ مذاکرے کا انعقاد عالمی یوم برائے دماغی صحت کی مناسبت سے کیا گیا جو ہر سال 10 اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر عائشہ نے مزید کہا کہ یہ تاثر عام ہے کہ دماغی بیماری میں مبتلا شخص پر تشدد ہی ہوگا، دوسروں سے مختلف نظر آئے گا اور وہ کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتا اور نہ ہی معاشرے کا کارآمد شہری بن سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’اس طرح کے گمراہ کن مفروضات کا انتہائی منفی اثر ان لوگوں پر ہوتا ہے جو اپنی اس کیفیت سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں‘۔ انہوں نے بتایا کہ ’تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دماغی امراض میں مبتلا افراد ممکنہ طور پر کسی نہ کسی طرح ستائے ہوئے ہوتے ہیں نہ کہ وہ دوسروں کو ستاتے ہیں، میڈیا کو آگے آنا چاہیے اور معاشرے میں موجود متعصبانہ رویے کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے‘۔
ڈاکٹر عائشہ نے کہا کہ اہل خانہ، دوست احباب اور معاشرے کا ان لوگوں کی زندگی میں انتہائی اہم کردار ہوتا ہے جو دماغی بیماری سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، انہیں مثبت رویے اور ان کی اس حالت کے ساتھ قبول کیے جانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ ملک بھر میں محض 400 تربیت یافتہ ماہر نفسیات موجود ہیں۔