ایمز ٹی وی (صحت) جرمن ماہرین کی ٹیم نے ملیریا سے حفاظت کے لیے خون کے سرخ خلیات میں موجود ایک جین کی تبدیل شدہ شکل کو چوہوں پر کامیابی سے آزمایا ہے اور اگر یہی تدبیر انسانوں میں بھی کارگر ثابت ہوئی تو امید ہے کہ ملیریا کے علاج کا ایک بالکل نیا بھی ہمارے پاس ہوگا۔ بعض لوگوں میں ملیریا کے خلاف قدرتی طور پر زبردست مزاحمت ہوتی ہے اور ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ ایسے لوگوں کے خون میں آکسیجن جذب کرنے والے مالیکیول (یعنی ہیموگلوبن) کی ساخت عام افراد سے کچھ مختلف ہوتی ہے۔ اس فرق کی وجہ سے ان لوگوں کے خون میں آکسیجن جذب ہونے کا عمل قدرے مختلف اور غیر متوازن اندازسے ہوتا ہے۔ لیکن آکسیجن جذب کرنے کا یہی مختلف اور غیر متوازن انداز اُن پر ملیریا کے طفیلئے (پلازموڈیم) کے حملوں کو ناکام بھی بناتا ہے۔
ہیڈلبرگ یونیورسٹی اسپتال کے سائنسدانوں نے ایک مصنوعی مادّہ ’’میناڈیون‘‘ (menadione) استعمال کرتے ہوئے 6 چوہوں کے خون میں آکسیجن جذب ہونے کا عمل غیر متوازن بنایا اور ان کے ملیریا سے متاثر ہونے کا جائزہ لیا۔ ان تمام چوہوں میں ملیریا کے اثرات واضح طور پر کم ہوگئے تھے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس منفرد طریقے کی بنیاد پر ملیریا کے ممکنہ علاج میں ابھی کئی اور مراحل طے کرنا باقی ہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ یہ کامیابی بہت امید افزاء ہے۔ اب تک ملیریا کے علاج میں کی جانے والی کوششوں میں ملیریا پیدا کرنے والے طفیلئے (یعنی پلازموڈیم) کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے لیکن یہ تحقیق اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اس میں خود انسانی جسم ہی میں ملیریا کے خلاف مزاحمت بڑھانے پر کام ہوا ہے۔