ایمز ٹی وئی(مانیٹرنگ ڈیسک) انٹرنیٹ موجودہ عہد کی چند اہم ترین ایجادات میں سے ایک ہے، تاہم اس وقت دنیا بھر کے صرف 40 فیصد افراد کو ہی اس تک رسائی حاصل ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب انٹرنیٹ روزمرہ کی زندگی کے لیے اہم ترین بنتا جارہا ہے، دوسری جانب پوری دنیا کو انٹرنیٹ سے جوڑنے کے لیے نت نئی ٹیکنالوجیز سامنے آتی رہتی ہیں جو پہلے سے بہتر اور تیز سروس فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
یہاں چند ایسی ہی ٹیکنالوجیز کے بارے میں جانیں جو موجودہ انٹرنیٹ کی رفتار کو تیز کرنے کے ساتھ ساتھ اس سروس کو زیادہ بہتر بنانے کے لیے تیار کی گئی ہیں اور ان کا اصل مقصد دنیا کے ہر فرد تک اس سہولت کو پہنچانا ہے۔
فیس بک کے بانی مارک زکربرگ ہمیشہ ہی پوری دنیا کو انٹرنیٹ سے منسلک کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں اور اس مقصد کے لیے ان کی کمپنی نے ایسے بڑے ڈرونز تیار کیے ہیں جو دنیا کے مختلف حصوں میں انٹرنیٹ تک رسائی میں مدد دیں گے۔ فیس بک کی کنکٹیویٹی لیب نے شمسی توانائی سے چلنے والے ان ڈرونز کو ڈیزائن کیا ہے جو کہ کسی بوئنگ 747 جتنے ہیں اور انہیں اکیویلا کا نام دیا ہے جس نے پہلی آزمائشی پرواز جون 2016 میں کی، اس وقت انٹرنیٹ ٹیکنالوجی اس کا حصہ نہیں تھی مگر اسے بڑی کامیابی مانا گیا، یہ پرواز 96 منٹ تک جاری رہی۔ کمپنی کو توقع ہے کہ اگلے مرحلے میں یہ توانائی کی بچت کرنے والے ڈرونز لیزر بیم کے ذریعے دنیا کے دور دراز خطوں میں انٹرنیٹ کی فراہمی کو یقینی بنا سکیں گے۔
چند ماہ قبل ایم آئی ٹی کی کمپیوٹر سائنس اینڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس لیب نے موجودہ وائی فائی سے 330 فیصد تیز وائرلیس انٹرنیٹ سسٹم کا اعلان کیا تھا جس کا بینڈ ودتھ موجودہ ٹیکنالوجی سے 2 گنا زیادہ ہوگا، اسے میگا می مو 2.0 کا نام دیا گیا، اس ٹیکنالوجی میں کئی ٹرانسمیٹرز کو ڈیٹا کی بلاتعطل ترسیل کے لیے استعمال کیا گیا۔ ایم آئی ٹی کے مطابق یہ ٹیکنالوجی اس وقت تیاری کے مراحل میں ہے اور جلد ہی یہ صارفین کو بہتر اور تیز تر انٹرنیٹ کی فراہمی کے لیے استعمال کی جاسکے گی۔
لائی فائی وہ ٹیکنالوجی ہے جو ایک دن انٹرنیٹ کی رفتار کو موجودہ عہد کے وائی فائی کے مقابلے میں سو گنا تیز کردے گی۔ ایک فرانسیسی کمپنی اولیڈکوم نے اس وائرلیس انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کو تیار کیا ہے جو کہ ایل ای ڈی پر کام کرتی ہے اور وہ بھی انتہائی تیز رفتاری سے،لیبارٹری میں اس حوالے سے ٹیسٹ کے دوران انٹرنیٹ کو 224 جی بی فی سیکنڈ کی رفتار سے چلانے میں کامیابی حاصل کی گئی جبکہ اس کمپنی کے تیار کردہ ایل ای ڈی لائٹ بلبس کے ذریعے انتہائی تیز رفتاری سے ڈیٹا کو 200 گیگا بائٹس فی سیکنڈ کی رفتار سے ٹرانسمٹ کیا جاتا ہے۔ اس رفتار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی مدد سے آپ پلک جھپکنے کے اندر 23 ڈی وی ڈیز فلمیں ڈاﺅن لوڈ کرسکتے ہیں۔
فیس بک کے ڈرون پروگرام سے پہلے گوگل نے پراجیکٹ لون کا آغاز کیا جس میں انٹرنیٹ کی فراہمی کے لیے غباروں کی مدد لی جاتی ہے، یہ انتہائی اونچائی پر اڑنے والے غبارے افریقا اور جنوب مغربی ایشیاء کے دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کی ترسیل کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں۔ یہ پراجیکٹ مختلف علاقوں تک پھیلایا جارہا ہے اور گوگل کو توقع ہے کہ مستقبل قریب میں دنیا کا ہر حصہ انٹرنیٹ کی سہولت حاصل کرسکے گا۔
جنوبی کورین کمپنی سام سنگ دنیا بھر میں انٹرنیٹ کی ترسیل کے ایک بڑے منصوبے پر کام کررہی ہے جس کے لیے سیٹلائیٹس کو استعمال کیا جائے گا، 2015 میں اس کمپنی نے 4600 سیٹلائیٹس کو عالمی نیٹ ورک کی تجویز پیش کی تھی، جو زمین کے مدار میں گردشکرتے ہوئے ہر ماہ ایک زیٹا بائٹ انٹرنیٹ زمین پر ترسیل کریں گے، کمپنی کے مطابق ایسا کرنے سے انٹرنیٹ کی رفتار میں نمایاں اضافہ ہوگا۔