ایمز ٹی وی (سائنس اینڈ ٹیکنالوجی) پاکستان کی یونیورسٹیاں تحقیق خصوصاً جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی یافتہ ملکوں کی درسگاہوں سے بہت پیچھے قرار دی جاتی ہیں لیکن نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے طلبہ کی تیار کردہ روبوٹ فٹبال ٹیم نے ٹیکنالوجی کی دنیا کے سب سے بڑے مقابلے روبوکپ کے لیے کوالیفائی کرکے ثابت کردیا ہے کہ مواقع اور وسائل ملنے پر وہ کِسی سے کم نہیں ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی جانب سے اپنے طلبہ کو 6 روبوٹ فراہم کئے گئے جو جسمانی لحاظ سے اسٹینڈرڈ پلیٹ فارم لیگ کے معیار پر پورے اُترتے تھے۔ مقابلوں میں کوالیفائی کرنے کے لیے طلبہ نے روبوٹس کو مصنوعی ذہانت سے آراستہ کیا جس کی مدد سے ان روبوٹس نے میگا ایونٹ تک رسائی حاصل کی۔
نسٹ کے شعبہ برائے روباٹِکس اینڈ آرٹیفِشل انٹیلی جنس کے سربراہ ڈاکٹر یاسر ایاز کا کہنا ہے کہ روبو کپ کو اسٹینڈرڈ پلیٹ فارم لیگ بھی کہا جاتا ہے، جس کا ہدف 2050 تک فٹبال کی روبوٹ ٹیم کو انسانوں کی عالمی چمپیئن ٹیم کے خلاف میدان میں اتارنا ہے۔ روبو کپ میں بین الاقوامی یونیورسٹیوں کی بنائی ہوئی روبوٹ ٹیمیں حصہ لیتی ہیں۔ ہمیں اِس نوعیت کے مقابلے میں شرکت کرنے والی جنوبی ایشیا کی پہلی ٹیم کا اعزاز حاصل ہوگیا ہے۔
پاکستانی ٹیم کو کوالیفائی کرنے کے قابل بنانے والے طلباء ان دنوں روبوٹ کو فٹبال کے مختلف گُر سکھانے میں مصروف ہیں۔ کوئی گول کیپر تیار کر رہا ہے تو کوئی اُنھیں اپنے ساتھیوں اور مخالف کھلاڑیوں کو پہچاننے کی صلاحیت سے آراستہ کررہا ہے۔ روبوٹ کو سکھانے والے طلبہ کی ٹیم میں شامل ماہم تنویر کا کہنا ہے کہ کسی بھی انسان کے لئے فٹبال کو کِک لگانا مشکل نہیں لیکن روبوٹ کا فٹبال کو کِک لگانا طویل اور پیچیدہ عمل ہے۔ روبوٹ کو پتہ ہونا چاہیے کہ بال کے لحاظ سے میں کہاں ہوں تاکہ وہ بال کے سامنے جا کر صحیح کھڑا ہو سکے پھر اُسے اپنی ایک ٹانگ پر توازن قائم کرنا ہوتا ہے۔
ماہم تنویر کا کہنا ہے کہ اُن کی ٹیم کے روبوٹ کھلاڑی نہ صرف کِک لگانے کےقابل ہیں بلکہ وہ اپنا بھی توازن برقرار رکھ سکتے ہیں۔ قومی ٹیم کے یہ روبوٹس میدان میں اپنی پوزیشن کی نشاندہی بھی کرلیتے ہیں البتہ عالمی مقابلہ کھیلنے سے پہلے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اُن کے کھلاڑی کو پتہ ہو کہ اُسے کتنی رفتار یا طاقت سے کِک لگانی ہے کیونکہ روبوٹ میں ان کی مقررہ طاقت اور رفتار کا اندازہ لگانے کی صلاحیت پیدا کرنے پر بہت کم کام ہوا ہے۔