لندن: بین الاقوامی ماہرین کی ایک ٹیم نے سائنسی سروے کے بعد کہا ہے کہ جلد یا بدیر دنیا بھرمیں گلیشیئر پگھلنے سے لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ افراد خطرے کی حد تک متاثر ہوسکتے ہیں جن میں ایک تہائی (50 لاکھ) افراد پاکستان اوربھارت میں رہائش پذپرہیں۔
نیوکاسل یونیورسٹی کی نگرانی میں بین الاقوامی ماہرین نے ایک نقشہ بنایا ہے جہاں گلیشیئر پگھلنے یا گلیشیائی جھیل یکلخت پھٹنے ( جی ایل او ایف) سے کرہِ ارض پر ڈیڑھ کروڑ افراد متاثر ہوسکتے ہیں۔ ان میں سے نصف تعداد صرف چار ممالک میں بستی ہیں۔
اوسط درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، اور گلیشیئر گھل کر پگھل رہے ہیں۔ پانی بھرے ان قدرتی پہاڑوں کے پگھلاؤ سے ان کے آگے آبی ذخائر جمع ہونے سے ایک جھیل سی بن جاتی ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یکلخت مزید پگھلاؤ شروع ہوتا ہے۔ اس سے پانی 120 کلومیٹر دور تک جاسکتا ہے اور اپنے راستے میں آبادیوں، فصلوں اور مویشیوں سمیت انفراسٹرکچر کو تباہ کرسکتا ہے۔ اس کا مظاہرہ پاکستان میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
1990 کے بعد سے دنیا بھر میں گلیشیائی جھیلوں میں اضافہ ہوچکا ہے اور محققین نے اس ضمن میں 1000 سے زائد گلیشیائی جھیلوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ پھر اس سے 50 کلومیٹر دائرے میں رہنے والی آبادی کودیکھا ہے۔ اس کے علاوہ تعمیرات اور وسعت وغیرہ پر بھی غور کیا ہے۔ جو آبادی گلیشیئر سے جتنا قریب ہوگی وہ یکساں خطرے میں ہوگی۔ یوں تحقیق میں کہا گیا ہے کہ خطرناک گلیشیئر کے 50 کلومیٹر قربت میں رہنے والے افراد اس سے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں۔
ان ممالک میں ایشیا کے پہاڑی علاقے سرِفہرست ہیں جن میں تبت سے کرغزستان اور چین تک کے علاقے شامل ہیں۔ یہاں 9 کروڑ 30 لاکھ افراد خطرے میں ہیں جبکہ ایک تہائی افراد پاکستان اور ہندوستان میں بستے ہیں جو گلیشیئر کے راستے میں رہ رہے ہیں۔
یہ تحقیق سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہوئی ہیں جن میں چین، پیرو، پاکستان اور ہندوستان سرِفہرست ہیں۔ سائنسدانوں نے اس ضمن میں منصوبہ بندی اور دیگر احکامات پر بھی زور دیا ہے۔