ایمز ٹی وی(ٹیکنالوجی)اس ضمن میں انھوں نے خردبینی نینو انجن کی ایجاد کی صورت میں بہت اہم کام یابی حاصل کی ہے۔ یہ کارنامہ برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے انجام دیا ہے۔ ان کا ڈیزائن کردہ نینو انجن کتنا چھوٹا ہے؟َ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر ایک میٹر کے کئی کھرب حصے کرلیے جائیں تو پھر ایک حصہ نینوانجن کی لمبائی کے مساوی ہوگا۔
انجن کی معیاری تعریف کے مطابق یہ ایک ایسی مشین ہوتی ہے جو توانائی کی کسی بھی شکل کو میکانی توانائی میں تبدیل کردیتی ہے۔ دنیا کا یہ سب سے چھوٹا انجن روشنی سے توانائی حاصل کرتے ہوئے مطلوبہ نتائج دے سکتا ہے۔ اس کی جسامت کسی انسانی خلیے سے بھی کہیں کم ہے، چناں چہ اسے خلیے میں داخل کر کے بھی مطلوبہ کام لیا جاسکتا ہے۔
مختصر ترین اور سادہ سی یہ ڈیوائس سونے کے باردار ذرات پر مشتمل ہے جنھیں ایک رال یا پولیمر جیل کے ذریعے باہم جوڑا گیا ہے۔ سائنس دانوں نے اس مشین کو actuating nano-transducers ( ANTs) کا نام دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ڈیوائس موجودہ انجنوں یا عضلاتی خلیوں کے مقابلے میں اکائی وزن کی نسبت سو گنا زیادہ قوت فراہم کرسکتی ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق جب اس انجن کو لیزر کی مدد سے گرم کیا جائے تو پولیمر جیل پھیلتا ہے اور پانی خارج کرنے کے بعد سُکڑجاتا ہے۔ پھیلنے اور سُکڑنے کے اس عمل کی وجہ سے طلائی نینوذرات گچھے کے شکل میں جڑے رہتے ہیں۔ لیزر لائٹ سے دور کرنے پر انجن فوراً ٹھنڈا پڑجاتا ہے، اور پانی بھی اس میں ازسر نو جذب ہوجاتا ہے۔ اس حالت میں سونے کے ذرات پھیلتے ہیں اور توانائی خارج کرتے ہیں جسے کام میں لایا جاسکتا ہے۔