اتوار, 24 نومبر 2024


وزیراعظم کا عہدہ ختم کرنے کی تجویز سامنے آ گئی

ایمزٹی وی(انٹرنیشنل) ترکی میں ایک نیا نظام متعارف کروانے پر غور کیا جارہا ہے، جس میں کوئی وزیراعظم نہیں ہوگا۔

خبر رساں ادارے کے مطابق ترکی کے جنگلات اور پانی کے امور کے وزیر فيسيل ايروغلو نے ترکی کی سرکاری نیوز ایجنسی اناطولو کو بتایا کہ، ‘نئے نظام کے تحت ایک یا 2 نائب صدر ہوں گے جو صدر رجب طیب اردگان کے ماتحت کام کریں گے’۔ انھوں نے مزید بتایا، ‘نئے نظام میں کوئی وزیراعظم نہیں ہوگا، اس کے تحت ایک صدر ہوگا اور ان کے بعد ایک نائب صدر، جس طرح امریکا میں ہوتا ہے، ہوسکتا ہے ہمارے پاس ایک سے زائد نائب صدر ہوں’۔ فيسيل ايروغلو کے مطابق ‘اس مجوزہ نظام کو اگلے برس تک ریفرنڈم کے لیے پیش کیے جانے کا امکان ہے’۔

رجب طیب اردگان 2014 میں ترکی کے صدر منتخب ہوئے تھے، جو اس سے قبل ایک عشرے تک وزیراعظم کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کی پارٹی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کو مذکورہ نظام کے لیے ریفرنڈم کرانے کے سلسلے میں 550 سیٹوں پر مشتمل پارلیمنٹ میں سے کم ازکم 330 ووٹوں کی ضرورت ہے۔ فيسيل ايروغلو نے پیشگوئی کی کہ مجوزہ اصلاحاتی نظام اگلے برس بہار تک ریفرنڈم کے لیے پیش کردیا جائے گا اور اس سلسلے میں اپوزیشن نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (ایم ایچ پی) کے ارکان اسمبلی کی بھی حمایت حاصل ہوگی۔ ايروغلو نے مزید بتایا کہ نئے نظام کے تحت کابینہ وزراء بھی ارکان اسمبلی نہیں رہیں گے۔ انھوں نے بتایا، ‘ایک ایسا سسٹم لایا جارہا ہے جہاں قانون سازی اور انتظام الگ الگ چلایا جائے گا’۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ نئے نظام کے تحت صدر اردگان اپنی پارٹی کے ساتھ منسلک رہ سکیں گے، جو صدارت سنبھالنے کے بعد اپنی پارٹی اے کے پی سے الگ ہوگئے تھے۔ ايروغلو نے بتایا کہ پارلیمنٹ اور صدر کے لیے انتخابات 2019 میں ہوں گے۔ طیب اردگان کے صدر بننے سے قبل ترکش وزیراعظم کے پاس زیادہ اختیارات تھے تاہم موجودہ وزیراعظم بن علی یلدرم، طیب اردگان کے ماتحت نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے ناقدین کا کہنا ہے کہ اپنے انتخاب کے بعد سے طیب اردگان ایگزیکٹو صدر بن چکے ہیں اور ان تبدیلیوں سے ترکی پر ‘ایک شخص کی بادشاہت’ ہوجائے گی۔ دوسری جانب ترکی کے مقامی اخبار ڈیلی حریت کے انقرہ کے بیورو چیف نے اس حوالے سے لکھا کہ نئے نظام کے تحت اردگان 2029 تک اقتدار میں رہ سکیں گے۔

واضح رہے کہ رواں برس جولائی میں طیب اردگان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد حکومت کی جانب سے شروع کیے گئے بڑے کریک ڈاؤن کو مغربی اتحادیوں کی جانب سے پہلے ہی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment