ایمزٹی وی(اسلام آباد) سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں وزیر اعظم کے وکیل کے سامنے حسن ، حسین اور مریم نواز کی کمپنیوں ، زیر کفالت کے معاملے اور تقاریر میں سچ بولنے سے متعلق 3 سوالات رکھ دیئے ہیں۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے پانامالیکس کی تحقیقات سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران جماعت اسلامی کی جانب سے ایک مرتبہ پھر کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کی گئی ، جس پر چیف جسٹس نے جماعت اسلامی کے وکیل اسد منظور بٹ کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ نے کہا ہے کہ کمیشن تشکیل دیا جائے، ہم نے تمام آپشن کھلے رکھے ہیں، اگراس نتیجے پر پہنچے کہ کمیشن کے بغیر انصاف کے تقاضے پورے نہ ہوں گے تو ضرور کمیشن بنائیں گے، نیب، ایف بی آر اور ایف آئی اے نے کچھ نہیں کیا، جب ہم نےدیکھا کہ کہیں کوئی کارروائی نہیں ہورہی تو یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لیا، ادارے قومی خزانے پر بوجھ بن گئے ہیں ، اگر انہیں کوئی کام نہیں کرنا تو ان کو بند کردیں۔
عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ وزیر اعظم کی پہلی تقریر میں سعودیہ مل کی فروخت کی تاریخ نہیں دی گئی، لندن فلیٹس سعودی مل بیچ کر خریدے یا دوبئی مل بیچ کر،بیان میں واضح تضاد ہے، نوازشریف نےکہا کہ لندن فلیٹ جدہ اور دبئی ملوں کی فروخت سے لئے، 33 ملین درہم میں دبئی اسٹیل مل فروخت ہوئی اور یہ قیمت وزیر اعظم نے بتائی۔ حسین نوازنے کہا کہ لندن فلیٹ قطرمیں سرمایہ کاری کے بدلے حاصل ہوئے، وزیر اعظم نے مسلسل ٹیکس چوری کی ہے، 2014 اور 2015 میں حسین نواز نے اپنے ابوجی کو 74 کروڑ کے تحفے دیئے۔ ان تحفوں پر وزیر اعظم نے ٹیکس ادا نہیں کیا۔
جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا کہ وزیر اعظم کے گوشواروں میں کہاں لکھا ہے کہ مریم نواز ان کے زیر کفالت ہیں۔ جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ ان کے پاس مریم کے والد کے زیر کفالت ہونے کے واضح ثبوت ہیں۔ جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا کہ ویلتھ ٹیکس 2011 میں مریم نواز کے اپنے والد کے زیر کفالت ہونے کے ثبوت بتائیں، جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ اس کے بھی ٹھوس شواہد موجود ہیں، مریم صفدر کو 3 کروڑ 17 لاکھ اور حسین نواز کو 2 کروڑ کے تحفے والد نے دیے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نعیم بخاری کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ کے د لائل سے ظاہر ہوتا ہے کہ مریم نواز زیر کفالت ہیں لیکن ابھی یہ تعین کرنا ہے کہ مریم نواز کس کے زیر کفالت ہیں، نعیم بخاری نے کہا کہ مریم نواز چوہدری شگر مل کی شیئر ہولڈر ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہو سکتا ہے کہ مریم نواز کی آمدن کا ذریعہ چوہدری شگر مل ہو۔
نعیم بخاری نے کہا کہ مریم نواز نے جاتی امرامیں اپنے والد کے ساتھ رہنے کا اعتراف کیا، مریم نواز کے مطابق وہ کسی پراپرٹی کی مالک نہیں، انہوں نے کوئی یوٹیلیٹی بل جمع نہیں کرائے، 2011 سے 2012 کے دوران مریم نواز کے اثاثوں میں اضافہ ہوا، مریم نواز نے والد سے 3 سال میں مجموعی طور پر 8 کروڑ روپے وصول کیے، انہوں نے بھائی حسن نواز سے 2 کروڑ روپے کا قرض لیا، مریم نواز کے شیئرز اور زرعی اراضی بھی ہے۔ کمپنیوں کےٹرسٹ ڈیڈکی کوئی حیثیت نہیں،قانون کےمطابق مریم نواز ان کی مالک ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بی ایم ڈبلیو گاڑی تو پہلے سے استعمال شدہ تھی، گاڑی کی مالیت میں ایک کروڑ 96 لاکھ کا اضافہ کیسے ہوگیا۔
جسٹس شیخ عظمت نے ریمارکس دیئے کہ بل جمع کرانا گھر کے مردوں کا کام ہوتا ہے، کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مریم والد کے زیر کفالت ہیں، زیر کفالت ہونے کا معاملہ اہمیت کا حامل ہے، ہمیں جائزہ لینا ہوگا کہ ملک کے قانون میں زیر کفالت کی کیا تعریف کی گئی ہے، ہم بھی تلاش کر رہے ہیں آپ بھی تلاش کریں، نعیم بخاری نے کہا کہ جناب میں عمر میں آپ سے بڑا ہوں، جس پر جسٹس عظمت نے کہا کہ بخاری صاحب آپ عمر بتا دیں پھر کچھ نہیں کہوں گا، نعیم بخاری نے کہا کہ میری عمر 68 سال سے زیادہ ہے، عدالت میرے ساتھ مذاق نہ کرے، جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ پھر آپ تسبیح پکڑیں، گھر چلے جائیں اور اللہ اللہ کریں۔
نعیم بخاری نے کہا کہ نومبر1999 میں حسن نوازنے ایک انٹرویو میں کہا کہ فلیٹس میں کرائے پر رہتا ہوں، فلیٹس کا کرایہ پاکستان سے آتا ہے، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ کرایہ پاکستان سے ضرور آتا ہے لیکن وہ بزنس سے آتا ہے یہ بات ہم نےنوٹ کی ہے۔ قطری شہزادے کے خط میں کہا گیا ہے کہ لندن کی جائیداد ان کی تھی سوال ہے کہ کیا حسن نواز کا بیان قطری شہزادے کے خط سے مطابقت رکھتا ہے۔ نعیم بخاری نے کہا کہ کرایہ کاروبار سےادا کرنے کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں، 1999 میں حسن نواز طالب علم تھا تو 2 سال بعد فلیگ شپ کمپنی کی رقم کہاں سےآئی۔ کرایہ دادا ابو کے شروع کردہ کاروبار سے آتا ہے یہ حسن نواز مان چکے ہیں،حسین نواز نے کہا کہ حسن نواز کو کاروبار کے پیسے اس نے دیے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا میاں شریف خود کاروبار سنبھالتے تھے، ہوسکتا ہےکہ میاں شریف بچوں اور پوتوں کی دیکھ بھال کرتےہوں۔ جسٹس عظمت نے ریمارکس دیئے کہ تمام بیانات کوملا کر پڑھیں کہ پیسہ دبئی سے قطر پھر سعودی عرب اور پھر لندن گیا، جسٹس اعجازالحسن نے ریمارکس دیئے کہ کوومبر کمپنی کے نام سے بھی ایک آف شور کمپنی ہے، اس کوجو کمپنی فنڈ فراہم کرتی ہے وہ دبئی میں ہے، کوومبر کو یہ رقم دبئی میں کہاں سےآتی ہے وہ سوال وکیل دفاع سے پوچھیں گے۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ نوازشریف کےگوشواروں کےمطابق مریم نواز2011میں ان کے زیر کفالت تھیں، پہلے نواز شریف نے مریم کو 3 پھر 5کروڑ تحفے میں دیے، پاناما لیکس کی دستاویز ڈاؤن لوڈ کی گئی ہیں، جنوری 1999 میں فلیٹس کے بورڈ آف ڈائریکٹرزمیں میاں شریف،شہبازشریف، حمزہ شہباز، شمیم اختر، صبیحہ اختر اور مریم نواز شامل تھے، 1999 میں لندن کی ایک عدالت نے فیصلہ بھی جاری کیا تھا۔ وزیراعظم کےبیانات میں تضادہےاس وجہ سےوہ صادق اورامین نہیں رہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں آپ سے بہت سے سوال کرنے ہیں بخاری صاحب، آپ جس دور کی بات کر رہے ہیں اس وقت وفاق مشرف کو ظاہر کرتاتھا، کیا مفادعامہ کے تحت درخواست میں صادق اورامین کامعاملہ سن سکتےہیں، اس حوالےسےقانون کےمطابق فورم موجود ہے۔ ہمارے سامنے یہی معاملہ ہے کہ آپ کےدستاویزات پر جواب لے کر فیصلہ کریں یا کمیشن بنائیں، اس بینچ کیلئے بظاہر یہ ممکن نہیں لگتا، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کو پہلےسزا ہوئی پھر وہ نااہل ہوئے۔ جسٹس اعجازالحسن نے ریمارکس دیئے کہ درخواستوں میں رقم منتقل ہونےکاسوال اٹھایا گیا ہے، اس کاجواب دینے کے لئے مخالف فریق کوسارا ریکارڈ پیش کرنا ہوگا اور وہ ریکارڈ کسی ٹریبونل کے سامنے پیش ہوگا۔
نعیم بخاری کی جانب سے دلائل مکمل ہونے پر عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے اپنے دلائل شروع کئے، ان کا کیس شارٹ، سوئٹ اور اسمارٹ ہے، ہم پاناما لیکس پر ٹی اوآر کمیٹی، الیکشن کمیشن اور دیگر فورم پر بھی گئے لیکن فائدہ نہیں ہوا۔ قائمہ کمیٹی میں ایف بی آر نے اراکین پارلیمنٹ کی توہین کی، دودھ کی رکھوالی پر بلوں کو نہیں بٹھا سکتے، عام آدمی ہوں میرا وکیل میرا رب ہے، میرا ایمان ہے کہ عدالت کو کیس کا علم ہے اور اللہ تعالی نےآپ سے فیصلہ لینا ہے، میں جدہ اور دبئی کی جائیداد کی تفصیلات میں نہیں جاؤں گا، نوازشریف کے کاغذات نامزدگی پر ماہر قانون دان موجود ہیں، یہ کہنا درست نہیں کہ کاغذات نامزدگی میں زیر کفالت ہونے کاخانہ نہیں تھا، زیر کفالت میں 2افراد کا نام درج ہے، ایک زیر کفالت اہلیہ اوردوسری بیٹی ہیں۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ علم نہیں کہ 12ملین درہم کتنے برکت والے ہیں جو 1989سے لے کر آج تک ختم نہیں ہو رہے، انہیں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ آف شور کمپنیاں نواز شریف کی ہیں، مریم نواززیرکفالت ہیں توآف شورکمپنیاں ظاہرکردینا چاہئےتھیں نیلس اورنیسکول کوگوشواروں میں ظاہر کرنا چاہئے تھا، میں کوومبر کمپنی کی ٹرسٹ ڈیڈ میں شریف خاندان کی پھرتیاں دکھانا چاہتا ہوں کہ جس دن مریم نواز کے دستخط ہوئے اس دن اس کی تصدیق بھی ہوگئی،دونوں تاریخوں پر دستخط ایک دوسرے سے مماثلت نہیں رکھتے، مریم نواز نے 2 تاریخ کو دستخط کئے لیکن نوٹری پبلک سےٹرسٹ ڈیڈزکی تصدیق نہیں ہوئی۔ درحقیقت دونوں ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہیں ان پر وزارت خارجہ کی تصدیقی مہر نہیں، 4 تاریخ تک جدہ سے لندن تک یہ ڈیڈ قطری جہاز کےعلاوہ نہیں پہنچ سکتی۔
شیخ رشید کے دلائل پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ انکم ٹیکس کاخانہ بھرا نہیں گیا تھا تو اس کا جائزہ لینا کس کا کام ہے، ٹیکس گوشوارےغلط بھرے گئے تو اس کافیصلہ مفادعامہ کے تحت کیا سپریم کورٹ کرے گی یا پھر فیصلے متعلقہ فورم پر اپیل کی جانی چاہئے، کیا انصاف کی خاطر قانون کو روندتے چلے جائیں۔ جس پر شیخ رشید نے کہا کہ تاریخ میں ایسےموقع آتے رہتے ہیں لیکن جمہوریت کو مضبوط کرنے کا آخری موقع ہے۔
شیخ رشید کی جانب سے دلائل مکمل ہونے پر وزیر اعظم نوازشریف کے وکیل سلمان بٹ نے دلائل شروع کئے تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کےپاس دفاع کے لئے بنیادی طور پر کیاہے۔ جس پر سلمان بٹ نے کہا کہ وہ درخواستوں پر عائد الزامات کا جواب دیں گے کیونکہ درخواستوں پر اٹھائے گئے الزامات دفعہ 184/3 میں نہیں آتے، اس کے لیے وہ وزیراعظم کی تقاریر کو تفصیل سے سامنے رکھیں گے.
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم کی تقاریر 27بار پڑھی جاچکی ہیں۔ الزامات رقم منتقلی کےبارے میں بھی عائد کئے گئے ہیں، الزام ہے کہ کمپنیاں اورجائیدادغیرقانونی طریقےسےبنائی گئیں، اصل بات یہ ہے کہ بچوں نے جائیدادیں کیسے بنائیں، بیانات میں تضاد کےعلاوہ یہ الزام ہے کہ بچوں کو وزیراعظم نے رقم فراہم کی۔ سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ درخواست گزاروں نے اس بارے میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کئے، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ جائیداد کی ملکیت کو تسلیم کرنے کے بعد ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری آپ کی ہے، ثبوت پر ایسے لوگوں نے بھی بات کی جن کو قانون کا کچھ علم نہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ بچوں نے کمپنیاں کیسے بنائیں، دوسرا سوال زیر کفالت ہونے کے معاملے سے متعلق ہے جب کہ تیسرا سوال ہے کہ وزیر اعظم کی تقریروں میں سچ بتایا گیا ہے یا نہیں۔ کیس کی مزید سماعت بدھ کو ہوگی۔
دوسری جانب وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں حسین، حسن اور مریم نواز کی جانب سے سپریم کورٹ میں متفرق درخواست دائر کی گئی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پاناما کیس انتہائی اہم نوعیت کا معاملہ ہے، اس کی وجہ سے ریاست کے مختلف اداروں کا کام متاثر ہورہاہے ، تاثر دیا جارہا ہے کہ وزیر اعظم اوران کے اہل خانہ کی جانب سے تاریخیں لی جارہی ہیں، حقیقت میں تاریخیں درخواست گزاروں کی جانب سےمانگی جارہی ہیں، اس لیے پاناما کیس کی سماعت روزانہ کی بنیادوں پر کی جائے۔