ایمز ٹی وی (کراچی ) سپریم کورٹ رجسٹری میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت ، پولیس کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹس مسترد کر دی گئی۔
سپریم کورٹ رجسٹری میں جسٹس امیر ہانی اسلم کی سربراہی میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت ہوئی، دورانِ سماعت پولیس کی جانب سے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سجاد علی شاہ کے بیٹے جسٹس اویس شاہ اغواء کیس پر آئی جی سندھ پولیس کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی۔
آئی جی سندھ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ایس ایس پی فاروق احمد، ایس پی اسد اعجاز، ایس پی امجد حیات اور ایس پی طاروق نواز سمیت 24 ڈی ایس پیز کے خلاف فرائض میں غفلت برتنے پر تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے اور اُن کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔
جسٹس امیر ہانی نے سندھ پولیس کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ صرف وارننگ دینے سے کام نہیں چلے گا، رپورٹ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے خلاف مترادف ہے،سیکریٹری داخلہ سندھ نے عدالت کو بتایا کہ صوبائی حکومت کے پاس تحقیقات کا اختیار ہے۔
جسٹس امیر ہانی اسلم نے سیکریٹری داخلہ سے استفتار کیا کہ ‘‘ کیا 20 جون کو شہر میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے خراب تھے ؟، جس پر سیکریٹری داخلہ عارف احمد خان نے عدالت کو بتایا کہ شہر میں لگے کیمرے ٹھیک ہیں مگر وہ بہت ہلکی کوالٹی کے ہیں جس کی وجہ سے ملزمان کی نشاندہی نہیں ہوسکی‘‘۔
جسٹس امیر ہانی اسلم نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ’’اتنے بڑے شہر میں 2 میگا پکسل کے کیمرے لگا کر پیسوں کا ضیاء کیا گیا، جدید دور میں ناکارہ کیمرے لگانے کی منظوری کس نے دی؟، کوئی بھی ادارہ اپنے کام کرنے کو تیار نہیں ہے‘‘۔
جسٹس امیر ہانی اسلم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’’کیا اب انتظامی معاملات بھی ججز دیکھیں گے؟ ‘‘، عدالت نے اویس شاہ بازیابی پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار کو سراہا اور مبارک باد پیش کی۔
اس موقع پر جسٹس خلیجی نے کہا کہ ہم نے جان کی پرواہ کیے بغیر اویس شاہ کیس پر کام کو جاری رکھا، امیر ہانی اسلم نے اس امید کا اظہار کیا کہ دیگر لاپتہ افراد بھی جلد بازیاب کروالیے جائیں گے۔