اتوار, 24 نومبر 2024


بھارتی ظلم و بربریت انٹرنیٹ اور فیس بک تنقید کا شکار

ایمزٹی وی(کراچی) مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی ظلم و بربریت کو فیس بک کی جانب سے سینسر کرنے کی ان گنت کوششوں پر سماجی حلقوں کی طرف ویب سائٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

مقبوضہ وادی میں بھارتی ٹیلی کمیونکیشن، سیل فون اور انٹرنیٹ کمپنیوں نے بھی اپنی سروسز بند کررکھی ہیں جو مظلوم کشمیریوں کی آواز دبانے کی مذموم بھارتی کوشش ہے۔

مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی مظالم کے خلاف پاکستان میں “بلیک ڈے” ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا

دوسری جانب فیس بک نے مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد، تنظیموں یہاں تک کہ بھارت سے باہر کشمیریوں کے ہمدرد افراد اور تنظیموں کے فیس بک اکاؤنٹ معطل کردیئے ہیں۔ ان اکاؤنٹس پر مقبوضہ کشمیر پر ہونے والے مظالم پر اظہارِ رائے، تصاویر اوربھارت سے علیحدگی کی تازہ لہر کی ویڈیوز موجود تھیں۔

اس ضمن میں پاکستانی اداکار حمزہ علی عباسی کا فیس بک اکاؤنٹ بھی معطل کردیا گیا ہے جس میں انہوں نے کشمیر میں برہان شہید کے متعلق اور کشمیریوں پر ظلم کے خلاف پوسٹ کی تھیں۔

کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ٹوئٹر پرKashmirCaravan ٹاپ ٹرینڈ رہا

فیس بک پر اپنے غم وغصے کا اظہار کرنے والے افراد کے اکاؤنٹس ڈی ایکٹو کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کشمیر سے وابستہ متعدد مقامی اخبارات، اہم شخصیات اور #BurhanWaniShaheed کے ہیش ٹیگ کو بھی سینسر کردیا گیا ہے۔ بھارتی ویب سائٹ آئی بی ٹائمز نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ کشمیر میں آزادی کی حامی ہما ڈار کا فیس بک اکاؤنٹ بھی ڈیلیٹ کردیا گیا ہے۔

جب فیس بک سے اتنی بڑی تعداد میں اکاؤنٹس ڈیلیٹ کرنے کے متعلق پوچھا گیا تو ویب سائٹ کے حکام نے جواب دیا کہ ’’ ہم دہشت گردی اور جرائم میں ملوث کسی تنظیم اور شخص کو فیس بک پر اکاؤنٹ بنانے کی اجازت نہیں دیتے۔ اس کے علاوہ ہم وہ متن اور معلومات بھی ڈیلیٹ کرتے ہیں جو ایسے گروہوں اور مجرموں کی تائید اور حمایت میں لکھی جاتی ہیں۔‘‘

کشمیریوں کیلیے آواز بلند کرنے پر ٹویٹر انتظامیہ نے حافظ سعید کا اکاؤنٹ بلاک کر دیا

فیس بک نے مزید کہا کہ کبھی کبھی حکومتیں بھی ہم سے ایسے اکاؤنٹ اور معلومات بند کرنے کی درخواست کرتی ہیں جن کے ذمے دار مقامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ بھارت ان ممالک میں سرِ فہرست ہے جو باقاعدگی سے فیس بک اکاؤنٹ، پروفائلز اور پوسٹس کو ہٹانے اور ڈیلیٹ کرنے کی درخواست کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ برس بھارت میں فیس بک اکاؤنٹس یا پوسٹس کو ہٹانے کی 15,155 درخواستیں دی گئیں جو 2104 کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ ہے

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment