Saturday, 21 September 2024


روہنگیا مسلمانوں کی تشدد دزداہ ویڈیو منظرعام پر

ایمز ٹی وی(ڈھاکا) میانمار کی حکومت کی جانب سے قائم کیے جانے والے ایک کمیشن نے مسلمانوں کی نسل کشی کے الزامات کو مسترد کردیا ہے لیکن دریا کنارے کیچڑ سے ملنے والی معصوم بچے کی لاش عالمی برادری کے منہ پر طمانچہ بن کر سامنے آئی ہے۔


میانمار کی حکومت کی جانب سے قائم کیے جانے والے ایک کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسے ریاست رخائن میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے، بڑے پیمانے پر ریپ کے الزامات کی حمایت کے لیے ناکافی ثبوت تھے،کمیشن نے برما کی سکیورٹی افواج کی جانب سے لوگوں کو مارنے کے دعوو¿ں کا ذکر نہیں کیا ہے،میانمار کی حکومت کی جانب سے قائم کیے جانے والا کمیشن رواں ماہ کے آخر میں اپنی حتمی رپورٹ جاری کرے گا، آتش زنی، گرفتاریوں اور تشدد کی ابھی تفتیش کر رہے ہیں۔


دوسری جانب غیرملکی میڈیا کے مطابق میانمار سے دریائے ناف عبور کر کے بنگلادیش جانے والے روہنگیا مسلمانوں کے خاندان کی ایک کشتی چند روز قبل الٹ گئی تھی جس میں سوار متعدد افراد ڈوب گئے تھے جس میں ایک 16 ماہ کا کمسن بچہ محمد شوحیات بھی تھا جس کی دریا کے قریب کیچڑ میں اوندھے منہ پڑی لاش نے شامی مہاجر بچے ایلان کردی کی یاد تازہ کردی۔


بحفاظت بنگلا دیش پہنچنے والے محمد شوحیات کے والد مظفرعالم نے سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیٹے کی تصویر دنیا کے لئے پیغام ہے کہ وہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے انسانیت سوز مظالم کا نوٹس لیں، جب اپنے بچے کی تصویر دیکھی تو سوچا کہ اس دنیا میں زندہ رہنے کا کوئی مقصد نہیں مجھے بھی مر جانا چاہیئے۔

انہوں نے کہا ہے کہ ہمارے گاوں میں فوجی ہیلی کاپٹروں نے فضا سے فائرنگ کی جس کے بعد زمینی فوج نے پورے گاو¿ں کو آگ لگائی جس کے نتیجے میں ان کے دادا اور دادی زندہ جل گئے جب کہ میانمار حکومت کے مظالم کے باعث ہزاروں روہنگیا مسلمان ملک چھوڑ کر بنگلادیش ہجرت کر رہے ہیں۔


دوسری جانب روہنگیا مسلمانوں کو اجتماعی انداز میں تشدد کا نشانہ بنانے کی ایک نئی ویڈیو منظرعام پر آئی ہے جس کی تصدیق میانمار حکام کی جانب سے بھی کی گئی ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ میانمار کے فوجی مسلمانوں کو اوندھے منھ لٹا کر انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں جب کہ میانمار حکومت نے اہلکاروں کو حراست میں لے کر تحقیقات کا حکم بھی دے دیا

Share this article

Leave a comment