Sunday, 13 October 2024
Reporter SS

Reporter SS

کراچی : جامعہ کراچی نےڈاکٹر آف فارمیسی،ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی، بی اے / ایل ایل بی اور بیچلرز،ماسٹرز پروگرام میں داخلوں کا آغاز ہوگیا۔

رجسٹرار جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر عبدالوحیدکے مطابق ڈاکٹر آف فارمیسی (مارننگ و ایوننگ پروگرام)،ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی(مارننگ پروگرام)،بی اے/ ایل ایل بی(پانچ سالہ پروگرام) اور بیچلرز،ماسٹرز (مارننگ پروگرام)میں داخلہ ٹیسٹ کی بنیاد پر ہونے والے داخلوں برائے سال 2021 ء کا آغاز ہوگیا ہے۔ خواہشمند طلبہ 30 نومبر2020 ء تک داخلہ فارم آن لائن جمع کراسکتے ہیں۔

 داخلہ ٹیسٹ کی بنیاد پر ہونے والے داخلوں برائے سال 2021 ء کا آغاز 23 نومبر2020 ء سے ہوگا

طلبہ تمام معلومات بمعہ آن لائن داخلہ فارم اور پراسپیکٹس کے حصول کے لئے  www.uokadmission.edu.pk  پررابطہ کرسکتے ہیں،جہاں تمام معلومات موجودہیں۔

بیچلرز پروگرام میں اپلائیڈ کیمسٹری اینڈ کیمیکل ٹیکنالوجی،اپلائیڈ فزکس،بائیوٹیکنالوجی،بزنس ایڈمنسٹریشن،کیمیکل انجینئرنگ،کامرس،کمپیوٹر سائنس،کرمنالوجی، ایجوکیشن، انوائرمینٹل اسٹڈیز،فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی،انٹرنیشنل ریلیشنز،ماس کمیونیکشن،پیٹرولیم ٹیکنالوجی،پبلک ایڈمنسٹریشن،ایجوکیشن،اسپیشل ایجوکیشن(بی اے آنرز)،ٹیچرز ایجوکیشن(بی ایڈآنرز)،جبکہ ماسٹرز پروگرام میں بزنس ایڈمنسٹریشن،کامرس،کرمنالوجی،ماس کمیونیکیشن،پاکستان اسٹڈیز اورپبلک ایڈمنسٹریشن شامل ہیں۔ان تمام شعبہ جات میں داخلے ٹیسٹ کی بنیاد پر دیئے جائیں گے۔

واضح رہے کہ مخصوص نشستوں اور سیلف فائنانس پر داخلے کے خواہشمند طلبا وطالبات کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ بیچلرز،ماسٹرز، ڈاکٹر آف فارمیسی (مارننگ وایوننگ پروگرام)،بی اے/ ایل ایل بی اور ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی کا داخلہ فارم جمع کرائیں اور داخلہ ٹیسٹ میں لازماً شرکت کریں بصورت دیگر انہیں داخلے کے لئے اہل نہیں سمجھا جائے گا۔

کراچی: اگر آپ فلکیات اور خاص طور پر فلکیاتی عکاسی (ایسٹرو فوٹوگرافی) کے شوقین ہیں تو یہ خبر یقیناً آپ کےلیے بہت اہم ہے۔ 16 سے 25 دسمبر تک اپنی دوربینیں اور کیمرے تیار رکھیے گا کیونکہ مارچ 2080 تک زحل اور مشتری ایک دوسرے سے اتنے قریب نظر نہیں آئیں گے؛ اور اس کے بعد ایسا دوسرا منظر 2400 میں ہی دکھائی دے گا!

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ آسمان پر زحل اورمشتری میں فاصلے کم ہوکر قربتیں بڑھ رہی ہیں جبکہ 16 دسمبر سے 25 دسمبر تک یہ دونوں سیارے ایک دوسرے سے اتنے قریب نظر آئیں گے کہ جتنے آج سے 800 سال پہلے دکھائی دیئے تھے۔ یعنی یہ واقعہ فلکیات کے نایاب ترین واقعات میں سے ایک ہے۔

علاوہ ازیں یہ منظر ان ملکوں اور علاقوں میں زیادہ واضح طور پر دیکھا جائے گا جو خطِ استوا (ایکویٹر) سے زیادہ قریب ہیں۔ پاکستان بھی ان ہی ممالک میں سے ایک ہے۔

ان علاقوں میں سورج غروب ہونے کے تقریباً ایک گھنٹے بعد تک مشتری اور زحل کو مغربی افق کے آس پاس دیکھ کر ر اس قدرتی نظارے کا لطف اٹھایا جاسکے گا۔

ماہرین کے مطابق، 16 سے 25 دسمبر تک آسمان میں مشتری اور زحل کا ظاہری فاصلہ پورے چاند کی چوڑائی (قطر یعنی ڈایامیٹر) کے صرف پانچویں حصے (20 فیصد) کے لگ بھگ ہوگا۔

21 دسمبر کو یہ دونوں سیارے ایک دوسرے سے کم ترین فاصلے پر ہوں گے جبکہ 25 دسمبر کے بعد یہ ایک بار پھر ایک دوسرے سے دور ہونے لگیں گے۔
اس کے علاوہ، مدار میں گردش کے دوران مختلف سیاروں کا درمیانی فاصلہ کم زیادہ ہونا ایک ایسا معمول ہے جو گزشتہ اربوں سال سے جاری ہے۔

تقریباً ہر 20 سال میں ایک موقع ایسا آتا ہے جب نظامِ شمسی کے باقی سیارے ہماری زمین سے بالکل سیدھ میں آجاتے ہیں اور آسمان میں ایک سیدھی لکیر کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔

اس سال بھی یہی کچھ ہونے جارہا ہے جو درحقیقت ایک فلکیاتی معمول ہے، جس کا کسی کی قسمت یا بدقسمتی سے کوئی تعلق نہیں۔

فلکیات کے شوقین اس خوبصورت نظارے کو آن لائن دیکھنے کےلیے ’’اسٹیلیریئم‘‘ نامی ویب سائٹ پر رجسٹر ہوسکتے ہیں۔

کراچی :  کڈنی فاونڈیشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے پاکستان کے معروف سائنسدان اور تعلیم دان پروفیسرڈاکٹر عطا الرحمن کو تین سال کی مدت کے لیے بورڈ کا چیئرمین منتخب کرلیا ہے۔

بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم (آئی سی سی بی ایس) جامعہ کراچی کے ترجمان کے مطابق کڈنی فاونڈیشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرزکی ایک میٹنگ میں پرفیسر ایس اے جعفر نقوی نے پروفیسر عطا الرحمن کو چیئر مین بنانے کی تجویز پیش کی جسے بورڈ کے اراکین نے متفقہ طور پرمنظور کرلیا۔

واضح رہے کہ آج کل پروفیسر عطا الرحمن وزیراعظم پاکستان کی قائم کردہ ٹاسک فورس برائے سائنس اور ٹیکنالوجی کے چیئرمین، سائنس اور ٹیکنالوجی پر مبنی معیشت کے قیام کے لیے ٹاسک فورس کے وائس چیئر مین اور ٹاسک فورس برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کوچیئر مین کے عہدوں پر فائز ہیں۔

پروفیسر عطا الرحمن کی نامیاتی کیمیاء کے موضوع پر 1232سے زیادہ بین الاقوامی اشاعتیں، امریکہ، یورپ اور جاپان میں طباعت شدہ 346کتب اور بین الاقوامی سائنسی جرائد میں 771 سے زیادہ تحقیقی اشاعتیں قابل ذکر ہیں، 45 پیٹنٹ بھی ان کے نام ہیں۔ ان کی زیرِ نگرانی82 طالب علموں نے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ہے۔ پروفیسر عطا الرحمن آٹھ یورپی ریسرچ جرنل کے مدیرِ اعلیٰ ہیں جبکہ متعلقہ مضمون سے متعلق دنیا کی نمایاں انسائکلوپیڈیا کے مدیر بھی ہیں۔ پروفیسر عطا الرحمن کو نہ صرف بین الاقوامی ایوارڈ حاصل ہوئے ہیں بلکہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں تمغہئ امتیاز، ستارہئ امتیاز، ہلالِ امتیاز اور نشانِ امتیاز بھی عطا کیا جاچکا ہے۔

کراچی: اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی نے انٹرمیڈیٹ سال اول سائنس، کامرس، آرٹس، ہوم اکنامکس ،ڈپلومہ ان فزیکل ایجوکیشن و میڈیکل ٹیکنالوجی کے سالانہ امتحانات برائے 2021 میں شرکت کے خواہشمند امیدواروں کےلئے انرولمنٹ فارم جمع کروانے کی تاریخوں کاا علان کردیا۔

جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق گورنمنٹ کالجوں اور گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکولوں کے طلبا اپنےانرولمنٹ فارم پیر 23 نومبر سے 7 جنوری تک اپنے تعلیمی اداروں تک جمر کرواسکتے ہیں جبکہ کالجوں کوہدایت کی گئی ہے کہ وہ یہ فارم 11 جنوری 2021 سے 15 جنوری تک متعلقہ سیکشن سے ضروری تصدیق کے بعد بورڈ آفس میں جمع کراسکتے ہیں

انرولمنٹ فارم اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کی وہب سائٹ   www.biek.edu.pk  سےڈائون لوڈ کئے جاسکتے ہیں
یاد رہے رواں سال وزیر اعلیٰ سند ھ کی ہدایت کے مطابق تمام گورنمنٹ فامرز اپنے کالجز اور ہائر سیکنڈری اسکولوں میں فیس معاف کردی گئی ہےلہذا گورنمنٹ تعلیمی اداروں کے طلبا بغیر کسی فیس کے انرولمنٹ فارمز اپنے کالجوں اور ہائر سیکنڈری اسکولوں میں جمع کرواسکتے ہیں گورنمنٹ تعلیمی اداروں کے سربراہوں کوتاکید کی جاتی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کسی بھی طالب علم سے انرولمنٹ کی فیس کے نام پر پیسے وصول نہ کئے جائیں۔

کراچی: وزیر تعلیم و محنت سندھ سعید غنی نے وفاق کے تحت محکمہ تعلیم کے حوالے سے وفاقی وزیر تعلیم کی زیر صدارت منعقدہ این سی او سی کے اجلاس میں موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس سال کسی صورت بغیر امتحانات کے کلاسز میں بچوں کو پرموٹ نہیں کیا جائے گا۔

ہماری تجویز ہے کہ تمام تعلیمی ادارے بند نہ کئے جائیں بلکہ اگر ایسا لگتا ہے تو پرائمری اسکولز جس میں انرولمنٹ 73 فیصد ہے اس کو بند کیا جائے جبکہ کلاس 6 اور اس سے آگے کی تمام کلاسز کو جاری رکھا جائے

نویں ، دسویں، گیارہویں اور بارہویں کے امتحانات مئ اور جون میں لینے کا فیصلہ نہ کیا جائے بلکہ اس کو ہولڈ کیا جائے اور آگے کی صورت حال کو دیکھ کر بعد میں فیصلہ کیا جائے۔ چھوٹی نجی اسکولز کو مالی ریلیف فراہم کرنے کے حوالے سے انہیں بینکوں کے ذریعے آسان شرائط پر قرضے فراہم کئے جائیں اور اس پر سود وفاقی حکومت ادا کرے تاکہ یہ نجی اسکولز معاشی طور پر بدحالی کا شکار نہ ہوں۔

اسکولوں کے ساتھ ساتھ ہمیں ٹیوشن اور کوچنگ سینٹرز کو بھی اس میں شامل کرنا چاہیے. غیر تدریسی سرگرمیاں اس سال مکمل طور پر تعلیمی اداروں میں بند کرنا چاہیے۔

جو اسکولز آن لائن تعلیم دینا چاہتے ہیں وہ آن لائن تعلیم دیتے رہیں لیکن اگر کوئی والدین اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیجنا چاہتے اور اپنے بچوں کو گھروں پر ہی تعلیم دلوانا چاہتے ہیں تو اسکولز کو بھی پابند کرنا چاہیے کہ وہ ان بچوں کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیں۔

لاہور: وزیر تعلیم پنجاب ڈاکٹر مراد راس نے صوبے بھر میں تمام سرکاری و نجی اسکولوں سمیت اکیڈمیز اور ٹیوشن سینٹرز بند کرنے کااعلان کردیا۔

ڈاکٹر مراد راس کا سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ صوبے بھرمیں تمام تعلیمی ادارے26نومبر 2020 سے بند ہونگے۔ مذکورہ بالا تمام 11 جنوری 2021 کو دوبارہ کھولنا ہوں گے۔ مزید تمام تفصیلات انشاء اللہ جلد ہی شیئر کردی جائیں گی۔

اسلام آباد: حکومت نےکورونا وبا کے بڑھتے کیسزکے پیش نظر 26 نومبرسے ایک ماہ کے لیے تمام تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

اسلام آباد میں وفاقی وزیرشفقت محمود نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وبا کے بڑھتے کیسزکے پیش نظر26 نومبرسے تمام تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں 26 نومبرسے 24 دسمبرتک آن لائن تعلیم کا سلسلہ جاری رہے گا جہاں یہ سہولت نہیں ہے وہاں اساتذہ ہوم ورک فراہم کریں گے جبکہ 25 دسمبرسے 10 جنوری تک سردیوں کی چھٹیاں ہوں گی، جنوری کے پہلے ہفتے میں ریویوسیشن ہوگا جس کے بعد 11 جنوری کو تمام تعلیمی ادارے کھل جائیں گے۔

شفقت محمود کے مطابق مارچ اوراپریل میں بورڈ کے امتحانات کومئی میں کرانے کی سفارش کی ہے، یونیورسٹی ہاسٹلزکے طلبہ کا ایک تہائی حصہ ہاسٹلزمیں قیام کرسکیں گے، نوکریوں کے سلسلہ میں ہونے والے ٹیسٹ جاری رہیں گے۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر(این سی او سی) پہلے ہی تعلیمی ادارے فوری بند کرنے کی سفارش کرچکا ہے۔

 

کراچی : پروفیسر ڈاکٹر شکیل الرحمن فاروقی کی تدریسی وتحقیقی خدمات کے اعتراف میں ان کے ریٹائرمنٹ کے موقع پرشعبہ جینیات جامعہ کراچی کی جانب سے شعبہ ہذا میں تقریب منعقد کی گئی۔

تقریب میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹرخالد محمود عراقی ڈاکٹر شکیل فاروقی کی تعلیمی، علمی و ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ڈاکٹر شکیل فاروقی شاعری بہت عمدہ کرتے ہیں اور اسٹاف کلب جامعہ کراچی میں مستقل ادبی نشستوں کے اہتمام کے ساتھ ساتھ بغیر کسی مطلب کے لوگوں کی مدد کرتے ہیں جو لائق تحسین اور قابل تقلید ہے۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئےجامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹرخالد محمود عراقی نے کہا کہ ایک استاد کبھی ریٹائر نہیں ہوتا کیونکہ استاد ہمیشہ استاد رہتاہے اور وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کسی نہ کسی طرح تدریس و تحقیق سے وابستہ رہتاہے۔ایک بہترین استاد اپنے طلبہ کے لئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔

صدر انجمن اساتذہ جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر شاہ علی القدر نے کہا کہ میں نے کچھ عرصہ شعبہ جینیات میں بحیثیت طالب علم گذارا اورڈاکٹر شکیل الرحمن فاروقی کے پڑھانے کے اندازسے بہت متاثر تھا۔

ئیسہ کلیہ معارف اسلامیہ جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر شہناز غازی نے کہا کہ ایک روشن ستارے کو روشن کہہ دیا جائے اور اس کی تعریف کی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ڈاکٹر مقصود علی انصاری نے جس طرح کی روایت کو قائم کیا ہے اس کو جاری رہنا چاہیئے۔

تقریب کے اختتام پر چیئر مین شعبہ جینیات جامعہ کراچی ڈاکٹر مقصود علی انصاری نے تمام مہمانوں کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ شعبہ جینیات کی نئی عمارت ڈاکٹر شکیل فاروقی کی محنتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے، انہوں نے ہمیشہ تعلیمی سرگرمیوں کو ترجیح دی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے جامعہ کراچی کے لئے بہت کچھ کیا۔

کراچی: صوبے بھر میں اسکولز بند کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے وزیر تعلیم سندھ سید غنی کی زیر صدارت اسٹیرنگ کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا۔

اجلاس میں محکمہ تعلیم کی اسٹیرنگ کمیٹی کا ہفتہ کو منعقد ہونے والا مشاورتی اجلاس تھا اور اس می تمام اسٹیک ہولڈرز سے وفاقی حکومت کی جانب سے دی جانے والی تجاویز کے حوالے سے مشاورت کرلی گئی ہے۔سندھ میں تعلیمی اداروں کو بند کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ سندھ حکومت اور محکمہ صحت سے مشاورت اور 23 نومبر کو وفاقی و صوبائی وزراء تعلیم کے ہونے والے اجلاس کے بعد کیا جائے گا ۔

ملک بھر میں کوووڈ 19 کے مریضوں کی تعداد میں ضرور اضافہ ہورہا ہے تاہم تعلیمی اداروں میں ایس او پیز پر بھی سختی سے عمل درآمد کرایا جارہا ہے اور اسے مزید سخت کیا جارہا ہے

اس موقع پر وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے کہا کہ 16 نومبر کو ہونے والے اجلاس میں این سی او سی میں تعلیمی اداروں میں 24 نومبر سے موسم سرما کی تعطیلات کے حوالے سے آگاہی فراہم کی گئی تھی تاہم مذکورہ اجلاس میں اس پر اتفاق رائے نہ ہونے کے بعد اجلاس 23 نومبر تک موخر کردیا گیا تھا البتہ اب وفاقی کی جانب سے موسم سرما کی تعطیلات 25 دسمبر سے 10 جنوری تک کرنے اور 25 نومبر سے 24 دسمبر تک ہوم کلاسز لینے اور اس دوران تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور دیگر اسٹاف کی حاضری رہنے اور اس دوران اگر تعلیمی ادارے آن لائن کلاسز یا ہفتہ میں ایک روز ایک ایک کلاس لینے کی تجویز دی ہے اور دسمبر کے آخر میں مزید اجلاس منعقد کرکے 11 جنوری کے حوالے سے فیصلے کی تجویز دی ہے۔

انہوںنے مزید کہا کہ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کوووڈ 19 کے باعث بچوں کی تعلیم پر بہت زیادہ اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اسی لئے ہم چاہتے ہیں کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بعد آئندہ کے لائحہ عمل کو طے کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ محکمہ صحت سندھ کی جانب سے بھی موجودہ کرونا کی لہر کے بعد یہ تجویز سامنے آئی ہے کہ ہمیں بچوں کی صحت پر کسی قسم کا کوئی رشک نہیں لینا چاہئے البتہ ہماری پوری کوشش رہی ہے کہ ہم تعلمی اداروں میں ایس او پیز پر مکمل عمل درآمد کرائیں۔

وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کردہ تجاویز کے بعد آج کے مشاورتی اجلاس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے جو تجاویز دی گئی ہیں وہ اس سے نہ صرف وزیر اعلیٰ سندھ کو بھی آگاہ کریں گے بلکہ ضرورت پڑی تو سندھ کابینہ میں بھی ان تمام تجاویز کو رکھا جائے گا اور پیر 23 نومبر کو ہونے والے وفاقی اجلاس میں بھی سندھ کا موقف اسی حوالے سے پیش کیا جائے گا۔

اس موقع پر انہوں نے کہاکہ جو اسکول اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو آن لائن تعلیم فراہم کرسکتے ہیں ہم انہیں اس بات کی مکمل اجازت دیتے ہیں اور جو والدین اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیجنا چاہتے اور وہ گھروں پر اپنے بچوں کو آن لائن یا دیگر کسی ذرائع سے تعلیم دینا چاہتے ہیں تو ان اسکولز کو بھی اس بات کا پابند کرتے ہیں کہ وہ ایسے بچوں کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیں۔

انہوں نے کہا کہ ایس او پیز کی خلاف ورزی پر صرف نجی نہیں سرکاری اسکولز میں بھی کارروائی کی جائے اور جو سرکاری اسکولز ایس او پیز کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں اس اسکول کے ہیڈ ماسٹر یا پرنسپل کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ سعید غنی نے کہا کہ 23 نومبر کے اجلاس کے بعد اگر ہم نے ضرورت محسوس کی تو دوبارہ اسٹیرنگ کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیں گے اور تمام امور تمام اسٹیک ہولڈرز کی باہمی مشاورت کے بعد طے کئے جائیں گے

 انہوں نے کہاکہ مختلف میڈیا پر یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ سندھ حکومت نے تعلیمی اداروں کو بند نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، اس میں کوئی سچائی نہیں ہے ہم نے آج یہ اجلاس اسی مقصد کے لئے طلب کیا ہے تاکہ تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے اور اس کے بعد ان تجاویز کی روشنی میں وزیر اعلیٰ سندھ، سندھ کابینہ اور محکمہ صحت سندھ کی مشاورت کے بعد 23 نومبر کو ہونے والے اجلاس کی روشنی میں تعلیمی اداروں کو بند کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔


سعید غنی نے کہا کہ وفاق کی جانب سے یہ تجویز آنے کے بعد ہم نے بہتر سمجھا ہے کہ اس سلسلے میں صوبہ سندھ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس سے آگاہ کرکے اس حوالے سے تجاویز لے۔ اس موقع پر مختلف شرکاء نے اپنی تجاویز دیتے ہوئے اظہار کیا کہ صرف تعلیمی اداروں کی بندش سے کرونا پر قابو نہیں پایہ جاسکتا اور تعلیمی اداروں کی بندش سے طلبہ و طالبات جن کا پہلے ہی تعلیمی نقصان ہوچکا ہے اس میں مزید اضافہ ہوا ہے

اجلاس میں مختلف ممبران نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیرنگ کمیٹی نے 13 ستمبر کے اجلاس میں ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ اس سال موسم سرما کی تعطیلات نہیں کی جائیں گی اس لئے ہمیں اسی فیصلے پر رہنا چاہیے۔

اجلاس میں سیکرٹری تعلیم سندھ احمد بخش ناریجو، سیکرٹری کالجز سندھ سید باقر نقوی، ممبران سندھ اسمبلی تنزیلہ قمبرانی، رابعہ اصفر، ایڈیشنل سیکرٹری تعلیم ڈاکٹر فوزیہ، ماہر تعلیم شہناز وزیر علی، تمام بورڈز کے چیئرمین، سیکرٹری جامعات، پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشنز کے عہدیداران اور محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران کو مذکورہ اسٹرنگ کمیٹی کے ممبران ہیں نے شرکت کی۔

اسٹینفرڈ: اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے ماہرینِ شماریات نے ایک لاکھ سے زائد سائنس دانوں کی فہرست جاری کی ہے جس میں سیکڑوں پاکستانی بھی شامل ہیں، یہ افراد اپنے تحقیقی مقالہ جات کے سبب ان دو فیصد بہترین سائنس دانوں میں شامل ہیں جو کئی حوالہ جاتی اشاریوں (انڈیکسنگ) سے سامنے آئے ہیں۔

اس فہرست میں سائنس دانوں کے کام کو 22 مرکزی اور 176 ذیلی شعبوں یا زمروں میں بانٹا گیا ہے۔ ہر محقق کے کم سے کم 5 تحقیقی مقالہ جات کو مدِ نظر رکھا گیا اور 2019ء کے آخر تک ان کے پورے تحقیقی کیریئر کو سامنے رکھا گیا ہے۔ یہ رپورٹ اس سال 6 مئی کو لکھی گئی جو اپنے اپنے شعبے کے دو فیصد بہترین ماہرین کو ظاہر کرتی ہے۔

اسٹینفرڈ پری وینشن ریسرچ سینٹر کے پروفیسر جان پی اے لونیڈیس، کیون ڈبلیو بویاک اور جیریون باس نے یہ فہرست مرتب کی ہے۔ اس میں انہوں نے سائنس داں کی تحقیق کو بہتر انداز میں بیان کرنے والے اشاریوں پر بات کی ہے جن میں انہوں نے سیلف سائٹیشن، ایچ انڈیکس، مختلف حوالہ جات، ایچ ایم انڈیکس سمیت دیگر کئی عوامل کو شائع کرکے بہتر انداز میں بھرپور ڈیٹا پیش کیا ہے۔


جامعہ کراچی
اقبال چوہدری، ڈاکٹر عطا الرحمان، ڈاکٹر درخشاں حلیم،ڈاکٹر بینا شاہین صدیقی، عبدالحمید،خالد محمود خان، نجیب عالم خان جبکہ ہیلوفائٹس پر قابلِ قدر کام کرنے پر سابق شیخ الجامعہ محمد اجمل خان مرحوم کا نام بھی شامل ہے۔

نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ)
، فیصل شفاعت،ایم مصطفیٰ، محمد عمران شفقت حسین، نورین اکبر شیر، مبشر جمیل اور ٹی ایم مصطفیٰ

آغا خان میڈیکل یونیورسٹی
ریحانہ اے سلام، ، خبیراحمد، ذوالفقار بھٹہ،انوار الحسن گیلانی ،مسٹرڈ فریزر، انیتا زیدی اور جے کے داس۔

زرعی یونیورسٹی فیصل آباد

غلام مرتضیٰ، محمد اصغر ، حق نواز بھٹی، محمد اشرف،احمد سعید، اشفاق احمدنبیل نیازی ،محمد ابراہم راجوکا، شکیل احمد انجم، صادق مسعود بٹ ، کنول رحمان، ظاہر احمد،صدام حسین اور محمد نوید۔

کامسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور اس سے وابستہ دیگر جامعات
جمشید اقبال، محمد اسلم نور،محمد آصف ظہور راجہ، محمد شاہد، ایس اے شہزاد، محمد اویس، خورشید ایوب، محمد قیصر، فرح مسعود، ایف ایم عباسی اور عبدالرؤف۔

 

متفرق اداروں کے ماہرین
انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی، رفعت اللہ خان، زرعی یونیورسٹی پشاور، آصف اللہ خان، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انجینیئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسِس، ہارون خان، عبدالولی خان یونیورسٹی مردان ، راب ڈؑبلیو برائیڈن، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بایو ٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینیئرنگ، محمد شاہد رضوان، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد، منور اقبال، یونیورسٹی آف لاہور،عمران میمن ، بحریہ یونیورسٹی کراچی، عبدالستار نظامی، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور، محمد سعید عمران، یونیورسٹی آف لاہور، خالد احمد، آئی بی اے سکھر، سید جواد، لاہوریونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسِس، محمد زبیر، یونیورسٹی آف ایجوکیشن،قاضی محمد عدنان حئی، محمد علی جناح یونیورسٹی ، رفعت اللہ خان، جامعہ زراعت، پشاور، بلال اصفر، ہزارہ یونیورسٹی، محمد ساجد حمید آکاش، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد، محمد افضل، جامعہ سرگودھا، سید علی رضا، اقرا یونیورسٹی، محمد نواز طاہر، جامعہ سرگودھا، عبدالباسط، بقائی میڈیکل کالج، سردار خان پشاور یونیورسٹی، مہتاب احمد ، تسنیم گل قاضی، سندھ یونیورسٹی، محمد ارشد ارسلان ، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی،جاوید اقبال، شعبہ طبعیات یونیورسٹی آف آزاد کشمیر، ہزارہ یونیورسٹٰی کے ایم علی، کرسٹوف ای برؤلش، گمبٹ انسٹی ٹیوٹ آف لیور ڈیزیز، فلپ رینسلے سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹٰیشن، ڈبلیو روب برینڈن، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بایوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینیئرنگ، انور فاروق سرگودھا یونیورسٹی، طارق محمود آئی بی اے، احساس پروگرام کی سربراہ اور ہارٹ فائل این جی او کی سی ای او ثانیہ نشتر، محمد آصف خان، سرحد یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، عمران حسن آفریدی، جامعہ سندھ ایم رمضان ، بحریہ یونیورسٹی ، ایم بی طاہر، جامعہ گجرات ، ہیوگ بریمر، یو این ڈی پی سوائل سروے پاکستان، مجاہد عباس، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور، محمد اجمل ، پی سی ایس آئی آر، مالاکنڈ یونیورسٹی کے حضرت علی، اصغری مقصود، ایئریونیورسٹی اسلام آباد، ایم ایچ سلیم، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انجینیئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسس، محمد ذکا اللہ، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ،سید علی رضا، اقرا یونیورسٹی، محمد نواز طاہر، جامعہ سرگودھا، عبدالباسط، بقائی میڈیکل کالج، محمد احمد، زرعی بارانی جامعہ ، راولپنڈی، محمد اویس، بحریہ یونیورسٹی، خالد عظیم، بارانی زرعی یونیورسٹی، جنید قادر، انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی، ندرت عائشہ اکرم، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد، محمد علی، سوات، عمرخان، ہزارہ یونیورسٹی، عمران حنیف، این یو آر یونیورسٹی، شہزاد بسریٰ، جامعہ زراعت پنجاب، فراست، شامیر، نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ ایمرجنگ سائنس، تازہ گل، سٹی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، پشاور، ماریہ امتیاز، نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسس، محمد اقبال، پی سی ایس آئی آر، عالم زیب، جامعہ مالاکنڈ، حیدرعدنان، نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسس،سندھ یونیورسٹی کے محمد بلال آرائیں، محمد آصف فاروق، رفاہ یونیورسٹی، شاہد مسعود، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بایوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینیئرنگ، حبیب احمد ، ہزارہ یونیورسٹی ، احمد جلال، ایئریونیورسٹی اسلام آباد،افتخار احمد، جامعہ مالاکنڈ اور سرگودھا یونیورسٹی کے محمد سلیم کے نام بھی شامل ہیں