ایمز ٹی وی (ایجوکیشن) جامعہ کراچی میں عالمی یوم ماحولیات کے تناظر میں منعقدہ ”شجر کاری مہم“ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے رئیس کلیہ علم الادویہ پروفیسر ڈاکٹر غزالہ حفیظ رضوانی نے کہا کہ پاکستان میں پھیلے جنگلات انتہائی ناکافی ہیں ،جس کی بنیادی وجہ درختوں کی بے دریغ کٹائی ہے یہی رفتار رہی تو 10 سے 15 سال کے قلیل عرصے میں پاکستان سے جنگلات کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا۔
ڈاکٹر غزالہ حفیظ رضوانی نے کہا کہ ایک صدی قبل پاکستانی جنگلات کا رقبہ ڈیڑھ لاکھ مربع کلو میٹر سے زائد تھا لیکن گذشتہ صدی کے آخر ی دو عشروں میں یہ رقبہ سکڑ کر 60 ہزار مربع میل تک محدود ہوگیاہے، جبکہ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں یہ جنگلات تقریباً43 ہزار مربع کلو میٹر ہوکر رہ گیا ہے جو کل رقبے کا تقریباً 5.5% فیصد بنتاہے جبکہ خطے کے دیگر ممالک کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو پڑوسی ملک بھارت میں جنگلات کل رقبے کا 24 فیصد سے زائد ہے جو بتدریج بڑھ رہاہے، سری لنکا میں 29 فیصد اور بنگلہ دیش میں 06 فیصد جبکہ ہمارے یہاں صورتحال اس تقابلی جائزے سے لمحہ فکریہ ہے۔
ڈاکٹر معظم علی خان نے کہا کہ شمالی علاقہ جات کے سلسلہ کوہ میں درختوں کی کٹائی نے پہاڑی اور میدانی علاقوں میں خوفناک سیلاب آنے کے خطرات بڑھادیئے ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں کثرت سے درخت ہونے کی وجہ سے موسلادھار بارشوں میں درختوں کی جڑیں پانی کو جذب کرتی ہیں اور پانی کے بہنے کی رفتار کو گھٹا دیتی ہیں یہ درخت سیلاب کے آگے بند کا کام کرتے ہیں جبکہ عصر حاضر میں جہاں جدید ٹیکنالوجی نے لوگوں کی زندگی کو سہل بنادیا ہے وہیں قدرتی وسائل اور افراد کے مابین خلیج وسیع ہورہی ہے جس سے حیات انسانی فطرت کے فراہم کردہ نعمتوں سے محروم ہوتی جارہی ہے۔
اس موقع پر ڈاکٹر حارث شعیب،ڈاکٹر فیاض وید ،ڈاکٹر نگہت رضوی،ڈاکٹر فوزیہ،ڈاکٹر رابیعہ اور ڈاکٹر راحیلہ بھی موجود تھی۔
ایمز ٹی وی (مانیٹرنگ ڈیسک) جامعہ کراچی کے انسٹیٹوٹ آف انوائرمینٹل اسٹڈیز کے ڈائریکٹر پروفیسرڈاکٹر طارق مسعود علی خان نے کہا کہ عصر حاضر میں دنیا کو شد ید مسائل درپیش ہیں جس میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلوگی، وسائل اورپانی کی کمیابی زرعی اجناس کی پیدوار میں بتدریج کمی شدت تمازت میں اضافہ،گلیشیئرکاتحلیل ہونااور موسمی تغیرات سرفہرست ہے۔ اگر ان مسائل کے تدارک کی منصوبہ بندی نہ کی گئی تو جنوبی ایشیاءمیں سی فوڈ(Sea food ) ، زرعی اجناس کی کمیابی اور ماحولیاتی تغیر کے اثرات سے زندگی کے معیار اور بقا انسانی کسے و شدید خطرات لاحق ہوجائینگے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اقوام متحدہ کے ڈیکلریشن کے تناظر میں ”عالمی یوم ماحولیات“ کے موقع پرمنعقدہ سیمینار بعنوان: ” ماحولیاتی اعداد وشمار کا جائزہ“ خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سیمینار کا انعقاد انسٹیٹوٹ آف انوائرمینٹل اسٹڈیز جامعہ کراچی میں کیا گیا تھا۔
اس موقع پر رئیس کلیہ علوم پروفیسر ڈاکٹر وقار حسین، پروفیسر ڈاکٹر معظم علی خان، عامر عالمگیر ، ڈاکٹر شاہد شوکت، پروفیسر ڈاکٹر اُمِ ہانی ،ڈاکٹر تحسین جیلانی اور ڈاکٹر فیصل رحمان بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر طارق مسعود علی خان نے مزید کہا کہ ماحولیاتی اعداد وشمارکے مطابق پچاس لاکھ سے زائد افراد صاف پینے کے پانی کی عدم دستیابی کے سبب مختلف عوارض کا شکار ہوکر اس کا نصف لقمہ اجل بن جاتے ہیں ،آبی حیات بھی خطرات سے دوچار ہیں سمندر برد ہونے والے جہازوں کے تیل اور آلودہ ویسٹیج جو سمندر برد کیاجاتا ہے اس سے ماحول اور سطح سمندر آلودہ ہوجاتے ہیںجو آبی حیات کے لئے مضرت رساں ہے۔ مچھلیوں کی ہزاروں انواع معدوم ہورہی ہیں جس کے اثرات غذائی بحران کا سبب بن سکتے ہیں۔ جنگلات ایندھن کے طور پر استعمال ہورہے ہیں ،شہروں میں نوائز پولوشن اعصابی امراض کے پھیلانے کا سبب بن رہا ہے۔ اس کے علاوہ بے ہنگم ٹریفک کے دھویں کے بے دریغ اخراج سے صحت انسانی کے لئے حددرجہ نقصان کا سبب بن گیاہے ان عوامل کے انسدادکے لئے کی بھرپور آگاہی فراہم کرنا قومی ضرورت ہے۔ رئیس کلیہ علوم پروفیسر ڈاکٹر وقار حسین نے کہا کہ عالمی ماحولیاتی دن ہمارے لئے سنہری موقع ہے کہ ہم ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے اپنے ماحول کو آلودہ ہونے سے بچائیں۔ اس تناظر میں ہم ایک بڑی اور مثبت ماحولیاتی تبدیلی برپا کرسکتے ہیں۔ سائنسدانوں اورمحققین کو ماحولیاتی اعداد وشمار سے اتفاق کرتے ہوئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس سے وہ بہتر مستقبل کے لئے حوصلہ افزا اور فائدہ مند نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔
سیمینار کے اختتام پر پروفیسر ڈاکٹر ام ہانی نے تمام مہمانوں کا شکریہ اداکیا جبکہ رجسٹرار جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر معظم علی خان نے سیمینا ر کے شرکاءکو سرٹیفیکٹ بھی تفویض کئے۔
ایمزٹی وی (سائنس اینڈ ٹیکنالوجی﴾ دنیا کی سب سے بڑی سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ فیس بک نے کم رفتار والے انٹرنیٹ کنکشن کے حامل صارفین کے لیے فیس بک کا ایک نیا ورژن پیش کیا ہے۔
فیس بک نے سست انٹرنیٹ سپیڈ والے ملکوں میں کم ڈیٹا استعمال کرنے والی تیز رفتار ایپ فیس بک لائٹ متعارف کروا دی ہے، فیس بک لائٹ فی الحال صرف اینڈرائیڈ کے لیے دستیاب ہے اور اسے اینڈرائیڈ 2.2 ورژن پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
فیس بک لائٹ ایپلی کیشن کا انٹرفیس 70 فیصد اس کی اصل دستیاب ایپلی کیشن جیسا ہی ہے۔ اس کا وزن کم رکھنے کے لیے اس کا ڈیزائن بہت ہی سادہ اور سیدھا رکھا گیا ہے۔ فیس بک کی عام ایپلی کیشن کی طرح اس میں بھی سارے فیچرز موجود ہیں۔ اس میں آپ اپنی نیوز فیڈ کے علاوہ فرینڈ ریکوئسٹس، میسجز، چیٹ، نوٹی فکیشنز وغیرہ دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنے فیس بک گروپ اور پیجز بھی منظم رکھ سکتے ہیں۔
فیس بک لائٹ کے پراڈکٹ مینیجر وجے شنکر نے بتایا کہ فی الحال یہ ایپ ایشیا میں دستیاب ہے اور جلد ہی اسے لاطینی امریکا، افریقہ اور یورپ میں بھی پیش کر دیا جائے گا، اس ایپ کا ہدف وہ ملک ہیں جہاں ترقی یافتہ ملکوں کے برعکس اب بھی اکثریت سست رفتار ٹو جی نیٹ ورک استعمال کرتی ہے۔اینڈروئیڈ صارفین یہ ایپلی کیشن گوگل پلے اسٹور سے انسٹال کر سکتے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ نئی فیس بک ٹوئٹر کے لیے کڑا چیلنج ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ ٹوئٹر کی کامیابی کی بڑی وجہ اس کا سادہ اور آسان ہونا ہے۔ یاد رہے کہ فیس بک کے سربراہ مارک زکر برگ نے چھ ٹیکنالوجی پارٹنرز کے ساتھ مل کر تیار کردہ انٹرنیٹ ڈاٹ او آر جی نامی پلیٹ فارم کا اعلان کیا تھا، اس پیلٹ فارم کا مقصد انٹرنیٹ تک رسائی نہ رکھنے والے 4.5 ارب لوگوں کو مفت انٹرنیٹ فراہم کرنا ہے۔