اتوار, 19 مئی 2024


سموسے کا تعلق ایران کی قدیم سلطنت سے

ایمز ٹی وی(صحت)برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق سموسے کا تعلق ایران کی قدیم سلطنت سے ہے۔ سموسہ برصغیر اسی راستے پہنچا جس راستے سے دو ہزار برس پہلے آریائي نسل کے لوگ بھارت پہنچے تھے۔ سموسہ ہندوستان میں وسطی ایشیا کی پہاڑیوں سے گزرتے ہوئے پہنچا جس علاقے کو آج افغانستان کہتے ہیں۔ افریقی سیاح ابن بطوطہ نے محمد بن تغلق کے دربار میں ہونے والی عظیم الشان ضیافت میں فراہم کیے گئے سموسے کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے سموسے کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ قیمہ اور مٹر بھرا ہوا پتلی پرت والا پیسٹری تھا۔ سموسہ فارسی زبان کے ’سنبوساگ‘ سے ماخوذ ہے۔

سموسے کا ذکر پہلی بار گیارہویں صدی کے فارسی مورخ ابو الفضل بیہقی کی تحریروں میں ملتا ہے۔ تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ پہلی بار اسے تكونا کب بنایا گیا تھا۔ ابو الفضل بیہقی نے اپنی تحریروں میں غزنوی سلطنت کے شاہی دربار میں پیش کی جانے والی ’نمکین پیسٹری‘ کا ذکر کیا ہے جس میں قیمہ اور خشک میوہ بھرا جاتا تھا۔ اس پیسٹری کو اس وقت تک پکایا جاتا تھا جب تک کہ وہ خستہ نہ ہو جائے۔ لیکن مسلسل بر صغیر آنے والے تارکین وطن نے سموسے کی طرز اور رنگ کو بدل کر رکھ دیا۔ سولہویں صدی میں پرتگالیوں کی طرف سے آلو لائے جانے کے بعد سے برصغیر میں سموسے میں اس کا استعمال شروع ہوا

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment