ایمز ٹی وی (تجارت) پاکستان اسٹیل ملز کی انتظامیہ نے حکومت کو خبردار کردیا ہے کہ گزشتہ کئی ماہ سے تنخواہوں، طبی سہولتوں اور دیگر واجبات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ملازمین میں بے چینی بڑھتی جارہی ہے اور آگے چل کر یہ امن و امان کے لیے مسئلہ بھی بن سکتا ہے۔ یہ انتباہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب آڈیٹرز کا لگاؤ اسٹیل ملز سے ختم ہوتا جارہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اب اسے دوبارہ پنپنے کی صلاحیت رکھنے والے ادارے کی طور پر نہیں دیکھا جاسکتا اور عنقریب ایک ’ناکارہ اثاثہ‘ قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ اس کی سود مند نجکاری کے امکانات بھی کم سے کم تر ہورہے ہیں۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران لوہے کی مصنوعات کی درآمد پر 5 ارب ڈالر خرچ کیے گئے ہیں کیوں کہ پاکستان اسٹیل کی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے۔
وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے نام لکھے گئے خط میں پاکستان اسٹیل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اور وفاقی سیکریٹری برائے خضر حیات گوندل نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت جو وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ کررہی ہے، اس سے وابستگی رکھنے والے ملازمین مبینہ طور پر حالیہ دنوں میں اسٹیل مل کے اندر مظاہروں اور تشدد میں ملوث رہے ہیں۔ حیات گوندل نے خبردار کیا کہ اگر بروقت کارروائی نہ کی گئی تو دیگر ملازمین بھی اس احتجاج میں شریک ہوسکتے ہیں جسے فی الحال تو پولیس، کمشنر کراچی اور سندھ کے چیف سیکریٹری کے تعاون سے دبا دیا گیا ہے۔ حیات گوندل کے مطابق ملازمین سے ان کے مطالبات پورے کرنے کے وعدے کیے گئے ہیں جن میں ماہانہ تنخواہ کی بروقت ادائیگی اور موجودہ اور سابق ملازمین کو دیگر سہولتوں کی فراہمی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسٹیل مل کی انتظامیہ نے فوری طور پر 18 کروڑ 30 لاکھ روپے میڈیکل بلز کی ادائیگی، انتقال کرجانے والے ملازمین کے لواحقین کو الاؤنس اور چھٹیوں سے متعلق الاؤنسز کی ادائیگی کے لیے جاری کیے ہیں تاکہ اس احتجاج کو بے قابو ہونے سے روکا جاسکے۔ اس کے علاوہ ’پانی ، بجلی اور گھریلو گیس کے کنکشن منقطع ہونے سے روکنے کے لیے ‘ لازمی ادائیگیاں کی جائیں گی تاکہ کوئی انسانی بحران جنم نہ لے۔ ایک سینئر عہدے دار نے ڈان کو بتایا کہ ’مالی سال 2000ء سے بھی زیادہ حالات خراب ہیں جب اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت عزیز نے چیف پرویز مشرف کو مشورہ دیا تھا کہ اسٹیل ملز سے جان چھڑائیں چاہے اس کے بدلے ایک روپیہ ہی کیوں نہ مل رہا ہو.ان کا مزید کہنا تھا کہ اب اسٹیل ملز کی نجکاری کے لیے پہلے بڑے پیمانے پر اس پر پیسہ لگانا پڑے گا۔