ایمز ٹی (وی تجارت)شہر قائد میں سردیاں شروع ہوتے ہی متوسط اور غریب طبقے کے افراد نے گرم کپڑوں کی تلاش میں لنڈا بازاروں کا رخ کرلیا۔ لنڈا بازار جانے والوں کے ہوش اس وقت اڑ گئے کہ جب انھیں معلوم ہوا کہ اب لنڈا مال کی قیمت بھی ان کی دسترس سے باہر ہوچکی ہے، کہنے کو تو لنڈا بازار غریبوں کے لیے تن ڈھانپنے کا آسرا تھا لیکن بڑھتی ہوئی قیمتوں نے غریبوں سے یہ آسرا بھی چھین لیا، دکان دارکہتے ہیں کہ اب کی بار آؤ تو پیسے کچھ زیادہ لے کر آنا کیوں کہ موسم سرما شروع ہوتے ہی استعمال شدہ گرم ملبوسات کی مانگ بڑھ گئی ہے۔ تاہم گرم ملبوسات مہنگے ہونے کی وجہ سے غریبوں کے ساتھ متوسط طبقہ نے بھی لنڈا بازا، بچت بازاروں اور ٹھیلوں کا رخ کرلیا لیکن رواں سال ان بازاروں میں غریب اورمتوسط طبقے کو مایوسی کا سامنا ہے، استعمال شدہ پرانے درآمدی ملبوسات، کمبل، سویٹرز، جیکٹس کی قیمتیں دگنی ہوگئی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان استعمال شدہ درآمدی ملبوسات میں معروف عالمی برانڈز کی جیکٹس، کوٹ اورسوئٹرز نے اب خوشحال طبقے کو بھی اپنی جانب راغب کرلیا ہے جو اب لنڈابازاروں میں برانڈڈ استعمال شدہ ملبوسات کی ترجیحی بنیاد پر خریدتے ہیں۔ بڑھتی مہنگائی میں خوشحال طبقے کے لنڈ بازاروں کا رخ کرنے سے رواں سال موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہی لنڈا بازاروں میں پرانے گرم ملبوسات کی قیمتیں دگنی ہوگئی ہیں جو غریب اور متوسط طبقے کی قوت خرید سے باہر ہیں، بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث کراچی میں پرانے استعمال شدہ درآمدی ملبوسات کی خریدو فروخت سال بھر جاری رہتی ہے۔ کراچی میں لنڈا مال کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شہر میں لگنے والے 200 سے زائد بچت بازاروں میں لنڈا مال کا ایک الگ پورشن لگایا جانا لازمی ہوگیا ہے جبکہ شہر کے ہر علاقے میں لنڈا مال کی 12 ہزار چھوٹی بڑی دکانیں قائم ہیں جہاں استعمال شدہ پردے، بیڈ شیٹس، بچوں اور بڑوں کے پینٹ، شرٹ، ٹی شرٹس، موزے، سویٹرز،کمبلوں کے علاوہ پرانے برتن، الیکٹرانک مصنوعات اور جوتوں کی فروخت ہوتی ہے۔ اس سال لنڈا مال کے بازاروں اور دکانوں میں استعمال کے قابل اچھے سوئیٹر کی قیمت300 تا 500 روپے، جیکٹ کی قیمت 600 سے 2500 روپے جبکہ پرانے کمبلوں کی قیمت 700 روپے سے 2000 روپے کی سطح تک پہنچ گئی ہے، سروے کے دوران عام شہریوں کا کہنا تھا کہ اب لنڈا بازار کے پرانے گرم ملبوسات ہماری قوت خرید سے باہر ہوگئے ہیں جبکہ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین بھی لنڈا بازار کی کم قیمت کے ملبوسات کی سہولت سے محروم ہورہے ہیں۔ سیکنڈ ہینڈ کلاتھ امپورٹرز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل عثمان فاروقی نے بتایا ہے کہ ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی زائد لاگت کے سبب پاکستان میں رواں سال پرانے کپڑوں کی درآمدات میں نمایاں کمی آئی ہے اور رواں سال کے ابتدائی 10 ماہ جنوری تا اکتوبر 2017 کے دوران مجموعی طور پر5 کروڑ 64 لاکھ ڈالر مالیت کا لنڈا مال درآمد کیا گیا جبکہ سال2016 کے دوران ملک میں 15 کروڑ 60 لاکھ ڈالر مالیت کا لنڈامال درآمد کیا گیا تھا،
پاکستان میں سب سے زیادہ لنڈا مال امریکا اور برطانیہ سے درآمد ہوتا ہے جبکہ ہالینڈ، جرمنی، بلجیم، جاپان، کوریا، چین سے بھی پرانے ملبوسات کی درآمدات ہورہی ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ کساد بازاری کی وجہ سے اب پاکستان میں درآمد ہونے والے لنڈا مال کا معیار اچھا نہیں رہا ہے کیونکہ امریکا برطانیہ اور یورپی ممالک کے عوام میں بھی اب ہرسال کرسمس کے موقع پر پرانے ملبوسات چیریٹی میں دینے اور نئے ملبوسات کی خریداری کا رحجان کم ہوگیا ہے اور اب وہ ملبوسات ایک سال کے بجائے 3 سال تک استعمال کرتے ہیں جبکہ پاکستان سمیت دیگرترقی پذیرممالک میں برانڈڈ پرانے ملبوسات اور جوتوں کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ کو بھانپتے ہوئے غیرملکی بیوپاریوں نے لنڈا مال کے درجے (کیٹیگریز) بنالی ہیں اور درجہ اول مال کی ہوشربا قیمتیں طلب کرنا شروع کردی ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی درآمد کنندگان اب زیادہ استعمال ہونے والا لنڈا کا مال درآمد کررہے ہیں اور یہی عوامل نہ صرف لنڈا مال کی درآمدات میں کمی کا باعث ہیں بلکہ لنڈا مال کی قیمتوں میں نمایاں اضافے کا بھی باعث بن گئی ہے۔ لائٹ ہاؤس لنڈا بازار کے صدر حکیم شاہ نے بتایا ہے کہ لنڈے کا کام اگرچہ محلوں اور بچت بازاروں تک وسیع ہوگیا ہے لیکن فی کنٹینر کی درآمدات پر ڈیوٹی و ٹیکسوں کی مد میں 100 فیصد اضافے سے اس کی درآمدی لاگت بڑھ گئی ہے جس کے سبب گزشتہ 2 سال میں لنڈا مال کی قیمتیں 300 فیصد بڑھ گئی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ 2 سال قبل فی کنٹینر کی درآمد پر 1 لاکھ 60 ہزار روپے ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی میں ادا کیے جاتے تھے لیکن اب اس مد میں 3 لاکھ 50 ہزار تا3 لاکھ70 ہزار روپے صرف ڈیوٹی وٹیکسوں کی مد میں ادا کیے جارہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں لنڈا مال کی مجموعی درآمدات کا 50 فیصد افغانستان کی مارکیٹوں میں پہنچ جاتا ہے درجہ اول کا حامل 30 فیصد لنڈا کا مالفنشڈ اور پروسیس ہو کر تھائی لینڈ اور جنوبی افریقہ کو ری ایکسپورٹ کردیا جاتا ہے، اس طرح سے مجموعی درآمدات کا بمشکل 20 فیصد مال مقامی مارکیٹوں میں فروخت کیا جاتا ہے پاکستان میں درآمد ہونے والے برانڈڈ جینز جیکٹس، پینٹ کی تھائی لینڈ، ٹی شرٹس، سوٹنگ شرٹس اور برانڈڈ جوتوں کی جنوبی افریقہ جبکہ لیڈیز پینٹ، ٹی شرٹس اور جوتوں کی ایران کو ری ایکسپورٹ کی جارہی ہے۔