ایمز ٹی وی (اسپیشل رپورٹ) جرمن سائنس دانوں کی جانب سے پیر کے روز سامنے آنے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سمندری سطح میں اضافے کو ’کم تر‘ سمجھا جاتا رہا ہے، حالاں کہ یہ اضافہ ماضی میں لگائے جانے والے تخمینوں سے دوگنا ہو رہا ہے۔
نیشل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع ہونے والی اس تحقیقی رپورٹ کے مطابق اس اضافے کے تباہ کن نتائج نکل سکتے ہیں، جس میں سمندری طوفان کہیں زیادہ تعداد آنے سے نقصانات بھی بہت زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ سمندروں کی سطح میں اضافہ دو وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے، ایک تو قطبین پر موجود برف کا پگھلنا اور دوسری زمینی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے پانی کا پھیلاؤ۔اب تک یہ سمجھا جا رہا تھا کہ سمندروں کی سطح میں سالانہ بنیادوں پر 0.7 تا ایک ملی میٹر اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی وجہ حرارتی پھیلاؤ ہے۔
اس تازہ جرمن تحقیق میں تاہم کہا گیا ہے کہ سن 2002 سے 2014ء تک سیٹیلائیٹ کی مدد سے جمع کیا گیا ڈیٹا بتا رہا ہے کہ سمندروں کے پھیلاؤ میں اضافہ 1.4 ملی میٹر سالانہ کی اوسط سے ہو رہا ہے۔ اس تحقیقی رپورٹ کے معاون مصنف اور بون یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر ژورگن کُشے کے مطابق، ’’آج تک، ہم نے پانی کے حرارتی پھیلاؤ کو کم سمجھا ہے، پانی کا یہ پھیلاؤ عالمی سطح پر سمندروں کی سطح میں اضافے کا اہم محرک ہے۔‘‘
بتایا گیا ہے کہ اگر حرارتی پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ قطبین کی برف کے پگھلنے کی وجہ سے پانی کی مقدار میں اضافے کو بھی شامل کر لیا جائے، تو دنیا بھر میں سمندروں کی سطح میں اوسط اضافے 2.74 ملی میٹر سالانہ کے حساب سے ہو رہا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں سمندروں کی سطح میں اضافہ غیرہموار ہے، یعنی بعض علاقوں میں یہ سطح زیادہ اور بعض میں کم بلند ہو رہی ہے۔ فلپائن کے اردگرد سمندری سطح میں اضافہ دیگر خطوں کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ محققین کے مطابق مغربی امریکی ساحلوں پر سمندری سطح خاصی مستحکم ہے، کیوں کہ وہاں سمندری حرارت میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔