ایمزٹی وی(ٹیکنالوجی)فن لینڈ کی آلٹو یونیورسٹی میں ماہرین کی ایک ٹیم نے ایسے شمسی سیل (سولر سیل) تیار کرلئے ہیں جنہیں انک جیٹ پرنٹر کے ذریعے کاغذ پر چھاپا جاسکتا ہے اور اس ٹیم میں نوجوان پاکستانی سائنسدان سید غفران ہاشمی بھی شامل ہیں۔ پرنٹنگ کی مختلف تکنیکیں اختیار کرتے ہوئے کم خرچ شمسی سیل تیار کرنے کا سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے لیکن ایسے شمسی سیل تیار کرنا اب تک ایک چیلنج ہی رہا ہے جنہیں انک جیٹ پرنٹر کے ذریعے خاص طرح کے کاغذ پر کسی تصویر کی طرح چھاپا جاسکے یعنی اس طرح کاغذ پر چھپنے والی تصویر بجلی بنانے کے ساتھ ساتھ ڈرائنگ روم کی زینت بھی بنی رہے۔
’’انرجی اینڈ اینوائرونمنٹل سائنس‘‘ نامی تحقیقی جریدے میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق فن لینڈ کی آلٹو یونیورسٹی میں خاصی تگ و دو کے بعد بالآخر ایک ایسا مائع تیار کرلیا گیا جو ان مادّوں کو نقصان پہنچائے بغیر انہیں اپنے اندر حل کرکے روشنائی میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے تحت تصویر کے جس حصے کا رنگ جتنا زیادہ گہرا ہوتا ہے، وہاں روشنی کو بجلی میں بدلنے کی کارکردگی بھی اسی قدر زیادہ ہوتی ہے۔
انک جیٹ پرنٹر کے ذریعے فی الحال تجرباتی طور پر تصویریں چھاپی جارہی ہیں جو شمسی سیل بھی ہیں لیکن توقع ہے کہ ماہرین جلد ہی اس ٹیکنالوجی میں موجود خامیاں دور کرنے کے بعد شمسی سیلوں کی گھریلو پیداوار کے قابل بھی ہوجائیں گے، جس کے بعد آپ کو بازار سے صرف انک جیٹ پرنٹر کی ایک خاص کارٹریج اور خصوصی کاغذ خریدنا ہوں گے جن پر یہ شمسی سیل کسی بھی شکل میں پرنٹ کئے جاسکیں گے۔
پاکستانی سائنسدان غفران ہاشمی بھی ماہرین کی اس ٹیم میں شامل ہیں، وہ آج کل آلٹو یونیورسٹی سے بطور پوسٹ ڈاکٹرل ریسرچ فیلو وابستہ ہیں،غفران ہاشمی سوئٹزرلینڈ کے ایک تحقیقی ادارے میں ایسے مختلف رنگ دار نامیاتی (آرگینک) مادّوں کی تیاری میں معاونت کرچکے تھے جو اپنے اوپر پڑنے والی روشنی سے بجلی بنانے کی صلاحیت رکھتے تھے البتہ یہ انک جیٹ پرنٹر میں روشنائی (اِنک) کی حیثیت سے استعمال کے قابل نہیں تھے۔
غفران ہاشمی اس بارے میں بتاتے ہیں کہ انک جیٹ سے مختلف رنگوں کی صورت چھاپے جانے والے یہ شمسی سیل اتنے ہی کارآمد اور پائیدار ہیں جتنے کہ عام شمسی سیل ہوتے ہیں۔ غفران ہاشمی نے بتایا کہ اب تک ہم انہیں لگاتار ایک ہزار گھنٹوں تک بجلی بنانے کےلئے کامیابی سے آزما چکے ہیں اور ان کی کارکردگی میں کوئی فرق نہیں پڑا۔