Friday, 29 November 2024


ورلڈ فورم فار ہارمونائزیشن آف وہیکل ریگولیشنز کی رکنیت حاصل کرنے کافیصلہ


ایمز ٹی وی (تجارت) حکومت نے ملک میں عالمی معیار کی گاڑیوں کی تیاری اور ان کی ایکسپورٹ کے لیے ورلڈ فورم فار ہارمونائزیشن آف وہیکل ریگولیشنز کی رکنیت حاصل کرنے کافیصلہ کیا ہے، اس مقصد کیلیے جاپان سے 2 ماہرین کی خدمات حاصل کر لی گئی ہیں۔

واضح رہے کہ ورلڈ فورم فار ہارمونائزیشن آف وہیکل ریگولیشنز کو اقوام متحدہ کے اقتصادی کمیشن براہ یورپ (یواین ای سی ای) کے ان لینڈٹرانسپورٹ ڈویژن کی ورکنگ پارٹی 29 کہا جاتا ہے، اس کا ٹاسک گاڑیوں کی بین الاقوامی تجارت میں سہولتوں کیلیے ریگولیشنز کا یکساں نظام ’یواین ریگولیشنز‘ تیار کرنا تھا، ورکنگ پارٹی29 جون 1952میں گاڑیوں کے تکنیکی تقاضوں پر ماہرین کی ورکنگ پارٹی کے طور پر کام کی گئی تھی تاہم اسے 2000میں ورکنگ پارٹی 29 یا ڈبلیو پی29کا نام دیاگیا جبکہ یواین ای سی ای کے ریگولیشنز کو غیریورپی ممالک کی شمولیت کے بعد اب یواین ریگولیشنز (یواین آر) کہاجاتا ہے۔

وزارت صنعت و پیداوار کے مطابق اس وقت دنیاکے مختلف ممالک نے عالمی ریگولیشن کا نفاذ کر رکھا ہے تاکہ مقامی سطح پر اور درآمد شدہ گاڑیوں میں سیفٹی اور ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس سلسلے میں حکومت نے یو این آر کے مطابق نیشنل ریگولیشن کو آٹو سیکٹر کی ترقی اور عملدرآمد کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا ہے،آٹو سیکٹر کو عالمی معیار میں ڈھالنے کیلیے ورلڈ فورم فار ہارمونائزیشن آف وہیکل ریگولیشنز (ڈبلیوپی29) کی ممبر شپ لی جائے گی ، ڈبلیو پی 29 میں شمولیت کے بعد انٹرنیشنل ہول وہیکل ٹائپ اپروول اسکیم کے تحت تمام ریگولیشن کا ملک میں نفاذ یقینی بنایا جائیگا۔

اس حوالے سے وزارت صنعت و پیداوار کے ذیلی ادارے انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر چوہدری طارق نے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ یواین ریگولیشنز کے عالمی ادارے کی رکنیت حاصل کرنے کیلیے ڈرافٹ کی تیاری مکمل کر لی ہے اور اس کو دفتر خارجہ بھجوا دیا گیا ہے تاکہ ممبرشپ کے لیے اپلائی کیا جا سکے، عالمی ادارے کی رکنیت حاصل کرنے کے بعد ملکی سطح پر آٹو سیکٹر میں انقلاب برپا ہوگا اور آٹو سیکٹر کو سیفٹی، انوائرمنٹ سمیت دیگر مسائل سے متعلق بین الاقوامی قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آٹو سیکٹر کو اپنا معیار بہتر بنانا ہوگا اور صارفین کو سہولتیں دینا ناگزیرہے۔

Share this article

Leave a comment