Friday, 29 November 2024


معذور پوتے کی ایسی دادی جس نے نئی مثال قائم کردی

 

ایمزٹی وی(مانیٹرنگ ڈیسک)چین میں ایک باہمت خاتون 76 سال کی عمر کے باوجود اپنے معذور پوتے کو روزانہ اسکول لاتی اور اسے دوبارہ اسکول سے گھر تک پہنچاتی ہیں لیکن اس کےلیے انہیں اوسطاً 20 کلومیٹر روزانہ کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔
شی یو یِنگ روزانہ اپنے معذور پوتے کے اسکول کے چار چکر لگاتی ہیں اور ان کے مطابق وہ ہمت نہیں ہارتیں اور اس وقت تک یہ کام کریں گی جب تک ان کی ٹانگوں میں دم ہے۔
عمررسیدہ خاتون کا پوتا جیانگ ہاؤ وین چلنے پھرنے سے قاصر ہے جس کا اسکول گوانگشائی میں واقع ہے۔ نو سالہ جیانگ کو دو برس قبل ڈاکٹروں نے ایک مرض ’سیربرل پالسی‘ کا شکار بتایا تھا اس کے ایک برس بعد اس بدنصیب بچے کے والدین میں طلاق ہوگئی۔ اس کی ماں نے دوسری شادی کرلی جبکہ اس کے والد اپنے معذور بچے کو لے کر واپس اپنی ماں کے گھر آگئے جہاں اب اس بچے کی دیکھ بھال ان کی دادی کررہی ہیں۔
 
shiyoung 1518188248
اس کے والد دن رات محنت کرکے بچے کے علاج کے اخراجات پورے کررہے ہیں اور اس کی دادی اسے تیار کرکے اسکول چھوڑتی ہیں اور اسے دوبارہ اسکول سے گھر لاتی ہیں۔ اسکول بہت دور ہونے کے باوجود بھی جیانگ ایک دن کی چھٹی نہیں کرتا۔ باہمت دادی اس کے ہاتھوں اور پیروں کی مالش کرتی ہیں، اسے دوا دیتی ہیں اور اسے چلانے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنے پوتے کی ہمت بڑھانے کے لیے بھی ہر ممکن مدد کرتی ہیں۔
 
1083062 chinas 1518188087 940 640x480
جیانگ کا اسکول اس کے گھر سے تین کلومیٹر دور ہے اور اس کے لیے ان کی دادی کو یہ فاصلہ 8 مرتبہ طے کرنا ہوتا ہے۔ پہلے وہ اسے صبح اسکول پہنچاتی ہیں اور دوپہر کو واپس لاتی ہیں۔ اس کے بعد اسے دوبارہ اسکول پہنچایا جاتا ہے اور شام کو جیانگ واپس گھر آتا ہے۔ اس طرح بزرگ خاتون کو روزانہ 15 میل یا قریباً 24 کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ اس مشکل کے باوجود اس کی دادی کسی سے شکایت نہیں کرتی اور مسرور رہتی ہیں۔
 
اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے دادی شی یو یِنگ نے بتایا کہ جب تک ہمت ہے وہ اس بچے کو اسکول پہنچانے اور اس کی دیکھ بھال کا کام کرتی رہیں گی۔ ان کے مطابق جیانگ بہتر ہورہا ہے اور وہ کھڑا ہوکر چند قدم چلنے بھی لگا ہے۔ اگرچہ اسے قلم تھامنے میں مشکلات کا سامنا ہے لیکن وہ ریاضی میں بہت اچھا ہے۔
دوسری جانب بچے کے والد اس کا علاج کراتے کراتے مقروض ہوچکے ہیں اور اسے ادا کرنے کے لیے وہ دن رات محنت کررہے ہیں۔

 

Share this article

Leave a comment