Thursday, 28 November 2024


کورونا وائرس؛ الٹرا وائیلیٹ روبوٹ تیار

طلبہ نے کورونا وائرس کے متاثرہ مریضوں کے وارڈز میں موجود بستر سمیت دیگر جراثیم زدہ (انفیکٹڈ) اشیا کو جراثیم سے پاک کرنے اور انھیں نئے مریضوں کے لیے قابل استعمال بنانے کی غرض سے ” الٹرا وائیلیٹ روبوٹ” تیار کرلیا ہے۔

این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اور آئی بی اے کراچی کے سابق طلبہ نے کورونا وائرس کے متاثرہ مریضوں کے وارڈز میں موجود بستر سمیت دیگر جراثیم زدہ “انفیکٹڈ” اشیا کو جراثیم سے پاک کرنے اور انھیں نئے مریضوں کے لیے قابل استعمال بنانے کی غرض سے ” الٹرا وائیلیٹ روبوٹ” تیار کرلیا ہے، جو اپنی ساخت کے اندر موجود الٹرا وائیلیٹ شعاؤں کی مدد سے کورونا وائرس یا اس کے مریض کے سبب  ماحول میں آنے والے جراثیم  کو مارنے کی صلاحیت رکھتا ہے اس روبوٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک موبائل اپلیکیشن تیار کی گئی ہے جس کی مدد سے اسے آپریٹ کیا جائے گا۔

روبوٹ تیار کرنے والے انجینیئر محمد نبیل نے کہا ہے کہ ہماری ٹیم نے مختلف اسپتالوں کے دورے اور ڈاکٹر حضرات سے ملاقات میں اس بات کی کمی کو شدت سے محسوس کیا تھا کہ کورونا کے جو مریض صحت یاب ہوکر اسپتالوں سے فارغ ہورہے ہیں یا جنھیں گھروں پر ہی کورنٹائن کیا گیا ہے ان کی بیماری کے دوران زیر استعمال جراثیم زدہ اشیا اور کمرے یا وارڈ کو اسٹرلائز کرنے کا کوئی سائنسی مکینزم موجود نہیں ہے جبکہ نئے مریض کو دوبارہ اسی جگہ پر ایڈمٹ کرنے سے قبل اس جگہ اور متاثرہ اشیاکو جراثیم سے پاک کرنے کیے لیے بھی متعلقہ عملہ یا تو تیار نہیں ہے یا اس میں خود جراثیم سے متاثر ہونے کا خوف موجود ہے لہذا اس ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیں ایک ایسے روبوٹ کیا تیاری کا خیال آیا جس کے ذریعے متعلقہ اشیا اور جگہ کو انسانوں کی موجودگی کے بغیر ہی اسٹرلائز کیا جاسکے۔

انھوں نے بتایا کہ کسی بھی سطح پر اگر یہ شعائیں چار منٹ تک مسلسل پڑتی ہیں تو وہاں موجود جراثیم مر جاتے ہیں محمد نبیل نے بتایا ہم نے روبوٹ پر کیمرہ نصب کیا ہے جس کی مانیٹرنگ اپلیکیشن کے ذریعے ہی ممکن ہے اور وارڈ کے باہر موجود روبوٹ آپریٹر اسے اپلیکیشن کی مدد سے کنٹرول کر سکتا ہے۔

کورونا فائیٹر روبوٹ کی تیاری میں تقریباً 6 لاکھ روپے کے اخراجات آئے ہیں اور اس کی تیاری میں کنڑولر(برین)،موٹرز، انڈرائڈ، آلٹروائیلیٹ ٹیوبس اور فائبر کا استعمال کیا گیا ہے انھوں نے بتایا کہ ایک روبوٹ کی تیاری میں ایک ہفتے کا وقت درکار ہے اور ہم نے مختلف سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹرز کو اس حوالے سے آگاہ بھی کیا ہے ۔

 

Share this article

Leave a comment