Friday, 29 November 2024


اپنے نایاب خون سے بچوں کی زندگیاں بچانے والے جیمز ہیریسن

ایمز ٹی وی (اسپیشل رپورٹ) جیمز ہیرسن آسٹریلیا میں ایک سادہ زندگی گزار رہے ہیں انھیں اپنے خاندان سے بے حد محبت ہے۔ وہ پچھلے 60 برسوں سے اپنے خون کا عطیہ دے کر ناصرف انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں بلکہ، اب تک لاکھوں نوزائیدہ بچوں کی زندگیاں بھی بچا چکے ہیں۔ 78 سالہ جیمز ہیرسن ایک عام سے آدمی ہیں لیکن ان کے پاس ایک چیز بہت خاص ہے اور وہ ہے ان کی رگوں میں دوڑنے والا نایاب خون۔

 

جیمز ہیرسن پچھلی چھ دہائیوں سے لگاتار تقریباً ہر ہفتے اپنے دایاں بازو سے بلڈ پلازما کا عطیہ کر رہے ہیں۔ لوگ انھیں 'گولڈن بازو والا شخص' کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔ آسٹریلیا کی ریڈ کراس بلڈ سروس کے مطابق جیمز ہیرسن کے خون میں ایک غیر معمولی اینٹی باڈیز ہے۔ جس کا استعمال زندگی بچانے والی ادویات میں کیا جاتا ہے، جس کی مدد سے اب تک ریسس بیماری (Rhesus disease) کے خطرے میں مبتلا بیس لاکھ نوزائیدہ بچوں کی زندگیاں بچائی گئی ہیں۔

 

جیمز ہیرسن نے ایک انٹرویو میں کہا کہ 14 سال کی عمر میں ان کا پھپھڑے کا آپریشن ہوا تھا اور آپریشن کے چند روز بعد مجھے میرے والد نے بتایا کہ میری جان بچانے کے لیے ڈاکٹروں نے مجھے 13 لیٹرز خون چڑھایا ہے جو نامعلوم افراد کی طرف سے عطیہ کیا گیا تھا۔

 

انھوں نے کہا کہ میں نے اسی روز یہ عہد کر لیا تھا کہ میں بھی اپنے والد کی طرح بلڈ ڈونر بنوں گا اور کچھ عرصے بعد میں نے خون کا عطیہ دینا شروع کر دیا اور تبھی ڈاکٹروں کو پتا چلا کہ میرے

خون سے ایک مہلک مرض کا علاج ہو سکتا ہے۔

 

جیمز ہیرسن کو آسٹریلیا میں ایک ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ انھوں نے 1960ء میں ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر اینٹی باڈیز سے انجیکشن تیار کرنے کا کام کیا تھا، جسے اینٹی ڈی انجیکشن کا نام دیا گیا۔ یہ انجیکشن خون کے نیگٹیو گروپ سے تعلق رکھنے والی حاملہ خاتون کو حمل کے دوران آر ایچ ڈی اینٹی باڈیز پیدا کرنے سے روکتا ہے جس سے پازیٹیو بلڈ گروپ رکھنے والے نوزائیدہ بچے کے خون کے خیلیات کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

 

آسٹریلین ریڈ کراس کی ڈاکٹر جیما فالکین مائر کے مطابق 1967ء تک آسٹریلیا میں ہر سال ہزاروں نوزائیدہ بچوں کی اموات واقع ہوتی تھی اور ڈاکٹر نہیں جانتے تھے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ تاہم تحقیق سے ثابت ہوا کہ یہ ریسس بیماری کا نتیجہ تھا جو اس وقت ہوتی ہے جب ایک خون کے نیگٹیو گروپ رکھنے والی حاملہ خاتون کا بچہ خون کے بازیٹو گروپ سے ہوتا ہے ایسی حالت میں ماں کا خون بچے کے خون کے خلیات کو تباہ کرنا شروع کر دیتا ہے اور اس طرح کے کیسسز میں بچے دماغی نقصان کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں یا پھر ان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ آسٹریلیا دنیا کا پہلا ملک تھا جہاں ایک بلڈ ڈونر میں اس اینٹی باڈیز کو تلاش کیا گیا اور یہ اس وقت ایک انقلابی دریافت تھی۔ ڈاکٹر فالکین مائر کے مطابق اگرچہ عطیہ کیے جانے والے خون کی ہر ایک بوتل بہت قیمتی ہوتی ہے لیکن جیمز ہیرسن کا خون خاص طور پر غیر معمولی ہے جبکہ آسٹریلیا میں انسداد ڈی انجیکشن کا ہر بیج جیمز ہیرسن کے خون سے تیار کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر اب بھی یہ یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ جیمز ہیرسن کا خون غیر معمولی کیوں ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ ایسا شاید ان کے پھپھڑے کے آپریشن کے بعد انتقال خون کی وجہ سے ہوا ہے۔

آسٹریلین ریڈ کراس بلڈ سروس کے مطابق جیمز ہیرسن آسٹریلیا کے 50 سے زائد افراد میں سے ایک ہیں جن کے خون میں یہ اینٹی باڈیز ہے۔ لیکن ڈاکٹر فالکین مائر کہتی ہیں کہ میرا نہیں خیال کہ ان کی جگہ شاید کوئی لے سکے گا کیونکہ جو کچھ انھوں نے کیا ہے وہ کسی اور کے لیے کرنا انتہائی مشکل ہو گا۔

جیمز ہیرسن کو آسٹریلیا میں متعدد اعزازات سے نوازا گیا ہے وہ اب تک ایک ہزار سے زائد بار خون کا عطیہ کر چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ آج بھی وہ اپنے بازو پر سوئی چبھتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے ہیں۔

Share this article

Leave a comment