جمعرات, 28 نومبر 2024


ملیریا کے متاثرین میں 30 فیصد کمی کا دعویٰ

ایمزٹی وی(ٹیکنالوجی)ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ اور کینیا کے سائنسدانوں پر مشتمل ایک تحقیقی ٹیم نے حال ہی میں ایک اچھوتے’’شمسی شکنجے‘‘ کی بڑے پیمانے پر آزمائشوں کے بعد ملیریا بردار مچھروں کی تعداد میں 70 فیصد جب کہ ملیریا کے متاثرین میں 30 فیصد کمی کا دعویٰ کیا ہے۔

مچھروں کو قید کرکے ہلاک کرنے والا یہ شکنجہ سورج کی روشنی سے بجلی بناتا ہے جب کہ اسے انسانی بدبو سے بھی لیس کیا گیا ہے جسے سونگھ کر مچھر گمراہ ہوتے ہیں اور بے اختیار اس شکنجے کی طرف لپکتے ہیں۔

یہ جانچنے کے لیے کہ اس شکنجے کی مدد سے مچھروں اور ملیریا کا پھیلاؤ روکنے میں واقعی کوئی فائدہ ہوتا ہے یا نہیں، تین ملکوں کے ماہرین نے پینل تشکیل دیا اور ’’سولرمال‘‘ (SolarMal) نامی منصوبہ شروع کیا۔ اس منصوبے کے تحت یہ شمسی شکنجے بڑی تعداد میں تیار کیے گئے اور انہیں کینیا کے 81 مقامات پر نصب کیا گیا جہاں 34 ہزار افراد پر مشتمل 4 ہزار سے زائد خاندان آباد تھے۔

یہ آزمائشیں اپریل 2012 سے مارچ 2015 تک جاری رہیں جن کے بعد معلوم ہوا کہ وہ علاقے جہاں یہ شمسی شکنجے نصب کیے گئے تھے وہاں دوسرے مقامات کی نسبت مچھروں کی تعداد میں 70 فیصد جب کہ ملیریا کے پھیلاؤ میں 30 فیصد تک کمی واقع ہوئی۔ مچھروں کو پکڑ کر ہلاک کرنے والے اس اچھوتے شکنجے کی خوبیاں اپنی جگہ لیکن ماہرین کا اعتراف ہے کہ یہ بھی ملیریا اور مچھروں کے مسئلے کا مکمل حل نہیں۔ البتہ بہتر ہوگا کہ اسے ملیریا پر قابو پانے والے جامع منصوبوں کا حصہ بنایا جائے۔

ملیریا، جو ’’انوفلیز‘‘ قسم کے مچھروں سے پھیلتا ہے اس وقت دنیا کی سب سے بڑی دردِ سری بنا ہوا ہے جس کا زیادہ زور براعظم افریقا میں ہے جہاں یہ ہر سال لاکھوں لوگوں کو ہلاک کرنے کے علاوہ علاج معالجے کی مد میں مجموعی طور پر سالانہ 12 ارب ڈالر کے مالی بوجھ کا باعث بنتا ہے۔ ملیریا کا خاتمہ کرنے کے لیے ایک طرف تو نت نئی دواؤں پر مسلسل کام جاری رہتا ہے تو دوسری جانب مچھروں کو ہلاک کرنے کے نئے اور ماحول دوست طریقے بھی مستقل بنیادوں پر تلاش کیے جاتے رہتے ہیں۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment