پیر, 25 نومبر 2024


60سے70 فیصدمرگی کے دورے بغیر کسی وجہ کے ہو تے ہیں،ماہرین

 

ایمز ٹی وی ( صحت /کراچی) مرگی کے دوروں کی بیماری دوسرے امراض کی طرح مکمل قابل علاج مرض ہے اب لوگوں کو اتنا شعورآچکا ہے کہ وہ اسکو باقاعدہ مرض سمجھ رہے ہیں جبکہ پہلے اس کو جنات کا سایہ اور آسیب کا اثر سمجھاجاتا تھا، اس لئے مستند معالج سے مشورہ کے بجائے جعلی عاملوں اور فقیروں کا رخ کر تے تھے اور اس کی وجہ سے مرض کی شدت میں اضافہ ہوجاتھا تھا۔ دوروں کی بیماری میں دو سال تک باقاعدگی سے ادویات کا استعمال نہایت کارآمد ہے ۔

حکومت کمپنیوں کو دوروں کی بیماری میں سستی اور موثر ادویات فراہم کر نے کاپابند کرے تو مریضوں کے علاج میں قدرے بہتری آسکتی ہے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ادویات کی قیمتوں کو کم کیا جائے تاکہ ہر مریض ادویات با آسانی خرید سکے۔ ان خیالات کا اظہار منتظم اعلیٰ کراچی نفسیاتی ہسپتال ڈاکٹر سید مبین اخترنے کراچی نفسیاتی ہسپتال کی مرکزی سماعت گاہ میں مرگی کے دوروں کی بیماری سے متعلق منعقدہ سیمینار سے خطاب کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ دوروں کی بیماری دماغ کی کسی خراش کی وجہ سے ہوتی ہے، جو کہ کسی چوٹ کے نتیجہ میں یا دوران زچگی ، دوران حمل ہونے کی وجہ سے ہو سکتا ہے یا بچپن میں کسی ایسی بیماری سے ہو سکتا ہے جو دماغ پر اثر انداز ہو تی ہو۔لیکن 60-70%مرگی کے دورے بغیر کسی وجہ کے ہو تے ہیں۔

یہ دماغ کے خلیوں کے ضرورت سے ذیادہ ہیجان سے رونما ہوتا ہے۔یہ کیفیت چند سکینڈ سے چند منٹ تک کی ہو تی ہے اور یہ جسم کے کسی حصے میں غیر معمولی حرکت سے لیکر جسم میں جھٹکے اور بے ہوشی تک کی علامات کے ساتھ ہوسکتی ہے ۔ دماغ کے جن حصوں میں خلیوں میں زیادہ انتشار ہے اسی مناسبت سے دورے کی شدت میں کمی اور زیاتی ہوتی ہے،اور مخصوص حصے متاثر ہوتے ہیں۔ دورے کی کیفیت کے ہونے سے پہلے بھی کچھ علامات ہوتی ہیں جن میں مریض بے چینی، خوف ، گھبراہٹ اور متلی وغیرہ محسوس کر نا ہے۔ اسے پیش خیمہ یا (AURA) کہتے ہیں۔ اس کے بعد اصلی دورے کی کیفیت ہوتی ہے جس میں مریض گر جاتا ہے، جسم اکٹر جاتا ہے اور دانت بھج جاتے ہیں۔

اکثر بے ہوشی ہوجاتی ہے اور منہ سے جھاگ آتا ہے ۔اس دورے کے دوران مریض کو چوٹ بھی لگ سکتی ہے، زبان دانتوں کے درمیاںآکر کٹ سکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں میں شعورآچکا ہے، پہلے اسکو جنات کا سایہ اور آسیب کا اثر سمجھاجاتا تھااس لئے وہ اب علاج کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔

 

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment