ایمزٹی وی (ٹیکنالوجی)ماہرین فلکیات نے اب تک کا سب سے طاقتور سپرنووا یعنی پھٹنے والا ستارہ دریافت کیا ہے۔
اس پھٹنے والے ستارے کو پہلی بار گذشتہ برس جون میں دیکھا گیا تھا لیکن اس میں سے اب بھی بےپناہ توانائی کی لہریں خارج ہو ر ہیں۔
اپنی انتہا پر یہ سپرنووا ستارا عام سپرنووا ستارے سے تقریباً 200 گنا زیادہ طاقتور ہے اور ہمارے سورج سے یہ 570 ارب گنا زیادہ درخشاں ہے۔
ماہرین فلکیات کے مطابق یہ سپرنووا انتہائی تیز رفتاری سے گردش کر رہا ہے۔ گردش کے ساتھ ہی اس کی رفتار دھیمی ہوتی جا رہی ہے اور اس عمل کے دوران پھیلنے والی گیس اور دھول کے غبار میں سے بہت بڑی مقدار میں توانائی نکل رہی ہے۔
محققین کا خیال ہے کہ یہ دھماکہ اور اس کے بعد کی ساری سرگرمی کا باعث دراصل اس ستارے کے وسط میں واقع ایک انتہائی کثیف اور شدید مقناطیسی قوت کا حامل گولہ ہے جسے ’مینگیٹار‘ کہا جاتا ہے۔
اس گولے کی جسامت لندن جیسے کسی بڑے شہر کے برابر ہے، اور یہ ممکنہ طور پر ایک سیکنڈ میں ایک ہزار مرتبہ جیسی تیز رفتار سے گردش کر رہا ہے۔
اوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر کرسٹوفر كوچینك اس سپرنووا ستارے کی تلاش کرنے والے ٹیم میں شامل تھے۔
وہ بتاتے ہیں: ’مرکز میں یہ بہت ٹھوس ہے۔ ممکنہ طور اس کا درمیانی حصہ ہمارے سورج کے برابر ہے اور جس علاقے میں یہ اپنی توانائی چھوڑ رہا ہے وہ ہمارے سورج سے پانچ یا چھ گنا زیادہ بڑا ہے اور یہ باہر کی طرف دس ہزار کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے بڑھ رہا ہے۔‘
اس سپرنووا کے متعلق معلومات سائنس جرنل کے تازہ شمارے میں شائع کی گئی ہیں۔
اب تک کے سب سے زیادہ طاقت ور سمجھے جانے والے اس سپرنووا کی تلاش سکائی آٹومیٹیڈ سروے فار سپرنووا نے زمین سے قریب 3.8 ارب نوری سال دور ہے۔
ماہرین فلکیات کو آسمان میں ہونے والے تاروں کے ان بڑے دھماکوں کی طرف ہمیشہ ہی سے دلچسپی رہی ہے اور وہ ان کی حرکات و سکنات پر نظر رکھتے ہیں۔
ہماری کائنات کی ترقی اور وسعت کیسے ہوئی، یہ سمجھنے میں سپرنوا ایک اہم کڑی ثابت ہو سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس سپرنووا کا اصل ستارہ بھی کافی بڑا رہا ہو گا یعنی ممکنہ طور ہمارے سورج کے مقابلے میں 50 سے 100 گنا ۔تک زیادہ بڑا۔