اتوار, 24 نومبر 2024


انسان سے روبوٹ تک کا سفر

ایمزٹی وی (ٹیکنالوجی)برطانوی شہری جیمز ینگ 2012 میں لندن میں ٹرین حادثے کا شکار ہوئے تھے جس میں ان کا بازو کٹ گیا تھا جس کے بعد بڑی مشکل سے ان کی جان بچائی گئی تھی۔ جیمز پیشے کے لحاظ سے سائنسداں تھے اور ان کی خواہش تھی کہ ان کا مصنوعی بازو ٹیکنالوجی کا شاہکار ہو۔ اس کے بعد ان سے لندن کی ایک ماہر اورآرٹسٹ سوفی ڈی اولیویرا براٹا نے رابطہ کیا اور انہی مستقبل کا جدید ترین بازو لگانے کی پیشکش کی۔

اس بازو میں سینسر لگے ہیں جو اصل اعصاب اور رگوں سے جڑے ہیں جو دماغی سگنل کے ساتھ کام کرتے ہیں اوراس بازو میں ایک بیٹری اور کمپیوٹر نظام بھی لگایا گیا ہے جس سے وہ اصل بازو کا کام لیتے ہیں اور چھوٹی اشیا بھی اٹھا سکتے ہیں۔

اس کےعلاوہ مشینی بازو میں ایک یوایس بی پورٹ لگی ہے جو فون کو چارج کرتی ہے، ایک لیزر لائٹ ہے، رات کو مختلف اشیا ڈھونڈنے کے لئے ایک ٹارچ بھی لگائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بازو کے اوپری حصے میں ایک چھوٹا ڈرون بھی نصب ہے جو اس بازو کو سائنس فکشن فلموں کی طرح ایک جدید شے ظاہر کرتےہیں۔ اگرچہ یہ روبوٹک بازو بہت مہنگا ہے لیکن کمپنی چاہتی ہے کہ حکومتی اداروں کی کوشش سے ایسے بازوو¿ں کو بڑے پیمانے پر تیار کرکے کم سے کم برطانیہ میں متعارف کرایا جائے تاکہ مزید لوگ اس سے استفادہ کرسکیں۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment