اتوار, 24 نومبر 2024


کچھ غیر ملکی روس کو دشمن سمجھتے ہیں

 

 

ایمز ٹی وی (ماسکو / روم ) روس کے صدر ولادی میر پوتن نے کریملن میں ملکی پارلیمان اسٹیٹ آف دی یونین سے سالانہ خطاب میں کہا ہے کہ روس کسی کے ساتھ لڑائی نہیں چاہتا، روس اپنے مفادات کا تحفظ کرے گا، وہ کسی جغرافیائی سیاسی محاذ آرائی کا حصہ بننے کا ارادہ نہیں رکھتا تاہم روس اپنے مفادات کو ذک پہنچانے کی کسی کوشش کو برداشت نہیں کرے گا، ان کا کہنا تھا کہ کچھ غیر ملکی روس کو دشمن سمجھتے ہیں لیکن ہم ایسا نہیں چاہتے، نہ کبھی ایسا چاہیں گے، ہمیں دوستوں کی ضرورت ہے۔

پوتن نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں روس ڈونلڈ ٹرمپ کی زیر صدارت امریکا کی نئی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کیلیے تیار ہے، اس سے پہلے بھی صدر پوتن کہہ چکے ہیں کہ وہ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد امریکا کے ساتھ بہتر تعلقات کی امید کرتے ہیں، اپنے خطاب میں انھوں نے شام میں صدر بشار الاسد کی حمایت کرتے ہوئے باغیوں سے لڑنے والے روسی فوجیوں کی ہمت کی تعریف کی۔

روسی صدر کا کہنا تھا کہ یقیناً ہم حقیقی اور ان چاہے خطرہ ’’بین الاقوامی دہشت گردی‘‘ کے خلاف امریکا کے ساتھ مل کر لڑیں گے، انھوں نے خبردار کیا کہ ’’اسٹرٹیجک مساوات‘‘ کو توڑنے کی کوئی بھی کوشش تباہ کن ثابت ہوگی، ان کا اشارہ امریکا اور روس میں جوہری توازن کی طرف تھا، امریکا اور یورپی یونین نے روس کی جانب سے شام میں بالخصوص حلب میں بمباری پر تنقید کی ہے۔
روسی صدر کی زیادہ تر تقریر روس کے اقتصادی معاشی چیلینجز کے بارے میں تھی، چین اور روس کے مابین باہمی تعلقات سے دونوں ممالک نے بھرپور فوائد حاصل کیے ہیں، دونوں ممالک کے مابین تعلقات کی بنیاد غلبہ حاصل کرنا نہیں بلکہ ریاستوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنا ہے، انھوں نے امید ظاہر کی کہ دونوں اطراف کیلیے فائدہ مند باہمی تعلقات کو تجارت، مالیات ، توانائی اور ہائی ٹیکنالوجی کے شعبوں میں مزید وسعت دی جائے گی۔

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاؤروف نے بھی کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی زیر صدارت امریکی انتظامیہ سے نئے تعلقات کا آغاز ہوگا جبکہ انھوں نے صدر اوباما کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا، روم میں اٹلی کے روزنامہ ’’ کیریئر ڈیلا سیرا ‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے سرگئی لاؤروف نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ جانے والے صدر کی غلطیاں دہرانا نہیں چاہے گی جس نے دانستہ طور پر امریکا روس تعلقات کو تباہ کیا۔

دریں اثنا ترک صدر رجب طیب اردوان اور روسی صدر پوتن میں ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے جبکہ ترک صدر اردوان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ شام میں ترک فوجیں داعش کے خلاف آپریشن کیلیے بھیجی ہیں، کسی انفرادی شخص یا کسی ملک کے خلاف نہیں بھیجیں، روس کے ترکی سے وضاحت طلب کرنے کے مطالبے پر ترک صدرکا یہ بیان سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ فوج کا مقصد دہشت گردی کے خلاف جنگ تھا، کسی کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ترکی پر شک نہیں کرنا چاہیے۔

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment