ایمز ٹی وی(انقرہ) ترک پارلیمنٹ نے بالآخر آئینی اصلاحات کا بل کثرت رائے سے منظور کرلیا ، جس کے ذریعے ملک میں صدارتی نظام نافذ کیا جاسکے گا ،
نیشنل اسمبلی سے منظوری کے بعد ان آئینی اصلاحات کی حتمی منظوری کے لیے عوامی ریفرنڈم منعقد کیا جائے گا اور خیال کیا جا رہا ہے یہ ریفرنڈم رواں سال دو سے نو اپریل تک منعقد ہوگا۔دوسری طرف ترک صدر رجب طیب اردگان نے نیشنل اسمبلی سے آئینی اصطلاحات کے بل کی منظوری پر خوشی کا اظہار اور خیر مقدم کرتے ہوئے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ عوام ریفرنڈم کو کامیاب کرکے ملک کو مضبوط اور ترقی یافتہ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے ۔ودسری جانب اپوزیشن نے بل کی منظوری پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بل کی منظوری کے ساتھ ہی ترکی میں تمام تر اختیارات صدر کو منتقل ہو جائیں گے اور ملک میں آمریت کی راہ ہموار ہو جائے گی ۔
ترکی کے سرکاری میڈیا کے مطابق ’آئینی اصلاحات بل‘ کی منظوری کے لیے کم سے کم 330 ووٹ درکار تھے جب کہ قومی اسمبلی کے550 ممبران میں سے339 ارکان نے آئین کے حق میں ووٹ ڈالے ،جبکہ عوامی ریفرنڈم میں ان اصلاحات کی منظوری کے لیے سادہ اکثریت یا کم سے کم 51 فیصد ووٹرز کی حمایت درکار ہوگی۔ ان اصلاحات کی منظوری اور نفاذ کے بعد جدید ترکی میں پہلی بار صدارتی نظام قائم ہوجائے گا جب کہ نئے آئین میں صدر کے اختیارات میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔
آئینی اصلاحات بل کے تحت ترکی کے صدر کو وزراء کی تقرری و برطرفی کے اختیار حاصل ہونے سمیت ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے اختیارات بھی مل جائیں گے، جبکہ صدر کے خلاف کسی بھی معاملے کی تحقیقات کرانے کے لیے قومی اسمبلی سے سادہ اکثریت میں بل کی منظوری لینا پڑے گی ، اس کے علاوہ صدر کو پارلیمنٹ تحلیل کرنے کا اختیار بھی حاصل ہوجائے گا۔ مجوزہ اصلاحات کے تحت فوجی عدالتیں ختم کردی جائیں گی جب کہ جج و اٹارنی حضرات کی اعلیٰ کمیٹی کے ارکان کی تعداد 22 سے کم کرکے 13 کردی جائے گی، جس میں سے 9 ارکان کی تقرری کا اختیار قومی اسمبلی جب کہ 4 ارکان کی تقرری کا اختیار صدر کو حاصل ہوگا۔نئے آئین کے تحت صدارتی اور پارلیمانی انتخابات بیک وقت ہر پانچ سال بعد منعقد کیے جائیں گے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر آئینی اصلاحات منظور ہوگئیں تو صدر رجب طیب اردگان 2029 تک عہدے پر برقرار رہ سکتے ہیں۔
ترک سرکاری نشریاتی ادارے کے مطابق قومی اسمبلی کی جنرل کمیٹی کی منظوری کے بعد مجوزہ آئین کو منظوری کے لیے صدر کے پاس بھیجا جائے گا، جس کے بعد سرکاری گزٹ میں اس کی اشاعت ہوگی۔ اس سے قبل ترکی کی قومی اسمبلی نے آئین کی تین شقوں میں ترمیم کی بھی اکثریت سے منظوری دی تھی، 18 شقوں پر مشمتمل آئین کی تیسری، چوتھی اور پانچویں شقوں میں تبدیلی کو زیادہ متنازع قرار دیا جا رہا ہے۔ ان شقوں کے تحت صدر کو زیادہ اختیارات دینے سمیت قومی اسمبلی کے ممبران کی عمر 25 برس سے کم کرکے 18 برس کی گئی ہے۔ حزب اختلاف کے ارکان نے آئینی ترامیم کو صدر رجب طیب اردگان کی خواہشات قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان ترامیم سے وہ ملک کے اکیلے حکمران بننا چاہتے ہیں، جب کہ حکومتی ارکان کا کہنا تھا کہ ان ترامیم سے ترکی کی حکومت فرانس اور امریکا کی حکومت کی طرح زیادہ مضبوط اور مؤثر ہوگی۔ خیال رہے کہ اس سے پہلی بھی ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کو اختیارات کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، رجب طیب اردگان پہلے 10 سالوں تک ملک کے وزیر اعظم اور اب صدارتی عہدے پر براجمان ہیں