ریاض: سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ سعودی ایران جنگ سے دنیا کی معیشت تباہ ہوجائے گی۔
سعودی ولی عہد نے امریکی ٹی وی چینل سی بی ایس کے پروگرام سکسٹی مینٹس میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ میں نے جمال خاشقجی کے قتل کا حکم نہیں دیا لیکن سعودی حکومت کا حصہ ہونے کی حیثیت سے میں قتل کی پوری ذمہ داری لیتا ہوں، اگرسعودی حکومت کے اہلکار کسی سعودی شہری کے خلاف کوئی جرم سر زد کرتے ہیں تو مجھ پر اس جرم کی پوری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
سعودی ولی عہد نے کہا کہ میں پوری کوشش کررہا ہوں اور اس کے لئے اقدامات بھی کررہا ہوں کہ جمال خاشقجی کے قتل جیسا واقعہ دوبارہ سرزد نہ ہو ، یہ ناممکن ہے کہ مجھے سعودی سلطنت کے لئے کام کرنے والے 30 لاکھ افراد کی روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ ملے جن افراد پر جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام ہے، اگر وہ ثابت ہوا توانہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔
سعودی ولی عہد نے کہا کہ جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقات جاری ہیں اور الزام ثابت ہونے پرملزمان کو ان کے سعودی حکومت میں دیئے گئے عہدے کی پرواہ کئے بغیر سزا دی جائے گی۔ اس بات کا کوئی پختہ ثبوت نہیں ہے کہ میرے قریبی افراد نے جمال خاشقجی کا قتل کیا ہے۔
سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ ابھی الزامات کی تحقیقات جاری ہیں سعودی حکومت ہونے کی حیثیت سے ہمیں اس واقعے نے بہت دکھ پہنچایا، اگر سی بی آئی کو اپنی تحقیقات کے مطابق لگتا ہے کہ میں نے ذاتی طور پر جمال خاشقجی کے قتل کا حکم دیا تو انہیں تحقیقات کو عوام کے سامنے لانا چاہیے، امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات جمال خاشقجی کے قتل سے خراب نہیں ہوسکتے، ہمارا تعلق اس واقعے سے بالاتر ہے، ہم دن رات کام کر رہے ہیں تاکہ ہمارا مستقبل ماضی سے بہترہو۔
شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ سعودی تیل کی تنصیبات پر حملہ سعودی عرب کے انرجی انڈسٹری کے دل پر حملہ نہیں تھا بلکہ عالمی انرجی انڈسٹری کے دل پر حملہ تھا، اس حملے کے باعث دنیا کی 5.5 فیصد انرجی ضروریات میں خلل واقع ہوا اس حملے کے باعث امریکا ، چین اور پوری دنیا متاثر ہوئی۔ سعودی عرب کا حجم ایک براعظم جتنا ہے سعوی عرب مغربی یورپ سے بھی بڑا ہے ہمیں چاروں اطراف سے دھمکیاں ملتی ہیں اور خطرات کا سامنا رہتا ہے، ہر جگہ کی پوری طرح سے حفاظت کرنا ناممکن ہے، کوئی بیوقوف ہی دنیا کی 5 فیصد انرجی سپلائی پر حملہ کر سکتا ہے، ایسا کرنے سے اسٹریٹیجک بلنڈر ثابت ہوتا ہے، ہمارا خطہ دنیا کو 30 فیصد انرجی سپلائی اور 20 فیصد عالمی تجارت کی راہداریاں فراہم کرتا ہے، دنیا کا 4 فیصد جی ڈی پی ہم پید اکرتے ہیں، اگر جنگ ہوئی تو ہمارا خطہ دنیا کو 3 بنیادی چیزیں فراہم نہیں کر پائے گا جس کا مطلب عالمی معیشت کی تباہی ہے۔
سعودی ولی عہد نے کہا کہ اگر ایران یمن میں حوثی باغیوں کی پشت پناہی کرنا بند کر دے تو یمن جنگ کا سیاسی حل مزید آسان ہو جائے گا، ہم مذاکرات کے ذریعے یمن میں جنگ بندی کے لئے تیار ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ کل کی بجائے آج ہی یمن میں جنگ بندی ہو جائے، امریکی صدر ایران کے ساتھ نیا نیوکلیئر معاہدہ چاہتے ہیں لیکن ایران مذاکرات کے لئے تیار نہیں، ایران آئل کی تنصیبات پر حملے کرنا جاری رکھے گا جس نے آئل کی قیمیتیں بڑھتی رہیں گی، ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے کیونکہ سیاسی اور پر امن حل جنگ سے بہتر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب ایک ایسا ملک ہے جو قانون کی بالا دستی پر چلتا ہے، چاہے مجھے ذاتی طور پر چند قوانین سے اختلاف ہو لیکن جب تک ایسے قوانین نافذ ہیں عوام کو ان کی پاسداری کرنی چاہیے جب تک کہ ایسے قوانین تبدیل نہیں کئے جاتے، مجھے دکھ ہوتا ہے جب دنیا میرے بارے میں ایسا سوچتی ہے کہ میں ایک تنگ نظر حکمران ہوں جسے بھی ایسا لگتا ہے وہ سعودی عرب آئے یہاں کے عوام اور خواتین سے بات کرے اور پھر فیصلہ کرے۔