سنگاپور: سائنس دانوں نے کہا ہے کہ انھوں نے جینیاتی تبدیلیوں کی نشان دہی کے لیے ایک ایسا طریقہ دریافت کیا ہے جو کرونا وائرس کے خلاف تیار کی جانے والی ویکسینز کے ٹیسٹ کے مراحل کو تیز تر کر دے گا۔
سنگاپور کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے جو تکنیک دریافت کی ہے اس کے ذریعے ممکنہ ویکسینز کے مؤثر ہونے کے بارے میں محض چند دن میں پتا چل سکے گا، اس سلسلے میں سنگاپور کے مذکورہ میڈیکل اسکول کو جہاں یہ تکنیک ڈویلپ کی گئی ہے، امریکی بایو ٹک کمپنی نے ممکنہ ویکسینز بھی فراہم کر دی ہیں، جن پر تجربات جاری ہیں۔
میڈیکل اسکول کے انفکشس ڈیزیز پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر اوئی انگ آنگ نے میڈیا کو بتایا کہ انسانی رد عمل کی بنیاد پر ویکسین ٹیسٹ میں عام طور سے مہینوں لگ جاتے ہیں، تاہم نئے طریقے سے چند ہی دن میں ویکسین کے مؤثر ہونے کے بارے میں معلوم ہو جائے گا، اس طریقے میں جین میں ہونے والی تبدیلی سے یہ معلوم ہوگا کہ کون سے جینز متحرک ہو گئے ہیں اور کون سے غیر متحرک۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ویکسین سے جسم میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے فوری تجزیے سے اس کے مؤثر ہونے اور اس کے مضر اثرات کے بارے میں جلد تعین ہو سکے گا، اس سے قبل ویکسین لینے والے افراد کے جسمانی رد عمل پر انحصار کیا جاتا تھا۔
سنگاپور کے سائنس دانوں نے یہ بھی واضح کیا کہ تاحال ایسی کوئی منظور شدہ دوا یا حفظ ماتقدم کی ویکسین سامنے نہیں آئی ہے جو کرونا وائرس کے لیے تیر بہ ہدف ہو، اکثر مریضوں کو صرف ایسی دوائیں دی جا رہی ہیں جو علامات کم کرنے میں معاون ہیں، جیسا کہ سانس لینے میں دشواری کے لیے دوا۔
ماہرین نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ایک ویکسین کی مکمل طور پر تیاری میں ابھی بھی ایک سال کا عرصہ درکار ہے۔ ادھر اوئی انگ آنگ نے کہا کہ وہ ایک ہفتے میں چوہوں پر ویکسین ٹیسٹ کرنا شروع کریں گے جب کہ انسانوں پر تجربات رواں سال کے دوسرے نصف میں شروع ہونا متوقع ہے۔