پیر, 25 نومبر 2024


میکس پلانک انسٹیٹیوٹ کےشعبہ حیاتیات اورطب کی پہلی پاکستانی خاتون نائب صدرمنتخب

جرمنی: پاکستانی نژاد جرمن ماہرِ جینیات آصفہ اختر کو جرمنی کی مشہور" میکس پلانک یونیورسٹی ـ" کے شعبہ حیاتیات اور طب کی نائب صدر منتخب کیا گیا ہے۔ اس طرح سوسائٹی کی تاریخ میں اس مقام تک پہنچنے والی وہ پہلی خاتون قرار پائی ہیں۔

پاکستان میں پیدا ہونے والی آصفہ اختر ایپی جنیٹکس اور کروموسوم پر تحقیق میں عالمی شہرت رکھتی ہیں اور اب انہیں میکس پلانک سوسائٹی کے زیرِ تحت طب و حیاتیات کے شعبے کا نائب صدر بنایاگیا ہے۔ فوٹو: نیچر

کراچی میں پیدا ہونے والی آصفہ اختر کے متعلق ہفت روزہ سائنسی جرنل ’نیچر‘ نے لکھا ہے کہ ڈاکٹرآصفہ اپنی غیرمعمولی تحقیق سے جرمن سائنس کمیونٹی میں ممتاز مقام رکھتی ہیں۔ کروموسوم اور ایپی جنیٹکس ان کا خاص شعبہ ہے۔ نائب صدر کے اعزاز کے بعد وہ سوسائٹی کے زیرِ تحت 27 اداروں اور 7 تحقیقی تجربہ گاہوں کا انتظام بھی سنبھالیں گی۔

پرعزم آصفہ نے اس اعزاز ملنے کے بعد کہا ، ’مجھے اپنے کاندھوں کی بھاری ذمے داریوں کا احساس ہے جس پر میں بہت سنجیدگی سے عمل کروں گی۔ ’ میں نوجوان سائنسدانوں جرمن تحقیق کا سرخیل بنانا چاہتی ہوں اور دکھانا چاہوں گی کہ ایسے رول ماڈل ہیں جو معاملات کو آگے بڑھاسکتے ہیں،‘ انہوں نے کہا۔

وہ 2013 سے میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ آف امیونولوجی اینڈ ایپی جنیٹکس کی سربراہ بھی ہیں۔ انہوں نے ڈی این اے سے ہٹ کر بھی جین پر اثر ڈالنے والے عوامل پر غور کیا جو ایپی جنیٹکس کی بنیاد ہیں۔ مشہورِ زمانہ پھل مکھی یا ڈروسوفیلا ماڈلنگ میں انہوں نے ایکس کروموسومز کو سمجھا ہے۔ 2019 میں آصفہ نے ایک معرکتہ الآرا مقالہ لکھا جس میں انہوں نے بتایا کہ کس طرح بعض خامرے (اینزائم) جینوم کو جوڑے رکھتے ہیں اور اس شعبے کے بڑے دماغوں نے اسے بہت سراہا۔

ان کا دوسرا اہم کام کروماٹِن پر ہے جو ڈی این اے اور پروٹین سے بنی ایک شے اور جو خلیے کے مرکزے (نیوکلیئس) میں کوموسوم کی تشکیل کرتا ہے۔ اس تحقیق پر انہیں فیلڈبرگ انعام دیا گیا جو ہرسال صرف ایک ہی ماہر کو ملتا ہے۔ اس کے بعد آصفہ کو 1652 میں جرمنی کی سب سے قدیم سائنسی اکادمی کی رکنیت عطا کی گئی۔

یورپی مالیکیولر بائیلوجی لیبارٹری کے سابق سربراہ لین میٹاج نے آصفہ کے بارے میں کہا کہ وہ علم کی اس مصروف ترین شاخ میں ہمیشہ انتہائی بنیادی اور حقیقی سوالات کرتی رہیں۔ میکس پلانک کے عہدے پر آصفہ نے کہا کہ وہ جرمن اکادمیہ میں خواتین کے لیے مثال بننا چاہتی ہیں کیونکہ خواتین کو اضافی چیلنج کا سامنا ہوتا ہے۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment