ایمز ٹی وی (لندن) برطانیہ میں آبادی کے بارے میں جاری نئے اعداد وشمار کے مطابق پہلی مرتبہ برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی 30 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔
آفس آف دی نیشنل اسٹیٹسٹکس ( اواین ایس) کی رپورٹ میں کہا گیا ہے برطانوی دارالحکومت لندن کے بعض علاقوں کی آبادی نصف سے زائد مسلمانوں پرمشتمل ہے اوراگلے 10 برس میں برطانیہ کے بعض علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہوگی اوران کی آبادی تمام مذاہب اورپس منظررکھنے والےافراد سے تجاوز کرجائے گی۔ اواین ایس کے مطابق بلیک برن میں 29 فیصد، سلو میں 26 فیصد، لیوٹن میں 25 فیصد، برمنگھم میں 23 فیصد، لیسیٹرمیں 20 فیصد اور مانچسٹرمیں 18 فیصد مسلمان بستے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق انگلینڈ اور ویلز میں رہنے والے نصف سے زائد مسلمان بیرون ملک پیدا ہوئے ہیں جب کہ دس سال سے کم عمرکے مسلمانوں کی آبادی برطانیہ میں رہنے والے تمام مذاہب اور قومیتوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے اور ان کی تعداد تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ برطانیہ میں 30 لاکھ مسلمانوں کا مطلب یہ ہے کہ 20 میں سے ایک شخص مسلمان ہے۔ اس کے بعد برطانیہ کی سماجی شناخت پر ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے اور کئی حلقوں سے زور دیا جارہا ہے کہ وہ برطانوی معاشرے اور ماحول سے اجنبیت دورکریں اور سماج میں جذب ہونے کی کوشش کریں۔
برطانیہ میں تارکین وطن پرنظررکھنے والے اور سابق سفارتکار لارڈ گرین نے کہا ہے کہ ’ یہ ایک واضح ثبوت ہے کہ بڑے پیمانے پربرطانیہ میں لوگ آرہے ہیں جو ہمارے معاشرے کو تیزی سے بدل رہے ہیں۔ انہوں نے برطانوی وزیرداخلہ کی اس بات سے بھی اتفاق کیا ہے کہ اس طرح برطانوی آبادی میں (مسلمانوں کی) سماجی ہم آہنگی کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ دیگر حلقوں نے کہا ہے کہ مغربی یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور دیگر خطوں سے مسلمان بڑی تعداد برطانیہ کا رخ کررہے ہیں۔
برطانیہ میں تجزیہ کاروں نے معاشرے میں مسلمان آبادی کے جذب ہونے پر زور دیا ہے اس کے علاوہ برطانوی مسلمانوں کو ایک بند برادری سے تعبیر کیا ہے۔