ایمزٹی وی(اسلام آباد)سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کی سماعت جاری ہے جس دوران وزیراعظم نواز شریف کے وکیل سلمان بٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نعیم بخاری ے جدہ اسٹیل ملز کے مجموعی واجبات 36 ملین درہم بتائے جبکہ جدہ اسٹیل ملز کے پانی کے واجبات قسطوں میں ادا کئے۔ اس پر جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا پانی کے واجبات طارق شفیع نے ادا کئے؟ تو سلمان بٹ نے تائید کرتے ہوئے کہا کہ طارق شفیع نے ہی پانی کے واجبات ادا کئے۔
جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ فیکٹری میں خسارے کے واجبات کیسے ادا کئے جس پر سلمان بٹ نے کہا کہ 1978ءمیں نئی انتظامیہ آنے کے بعد مل منافع میں چلی گئی، 40 سال پرانا ریکارڈ کہاں سے لائیں ، البتہ فیکٹری کے 75 فیصد حصص کا معاہدہ موجود ہے ۔ وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ دبئی کے بینک صرف پانچ سال کا ریکارڈ رکھتے ہیں، 1980ءکا ریکارڈ کہاں سے لاﺅں، 1999ءمیں تمام ریکارڈ قبضے میں لے کر سیل کر دیا گیا تھا ۔
انہوں نے مزید کہا کہ کمپنیوں کی بک ویلیو کچھ اور اصل قیمت کچھ اور ہوتی ہے، بڑے بڑے شہروں میں آج بھی پرچی پر کاروبار ہوتا ہے جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بٹ صاحب یہ موقف بڑا خطرناک ہے، کسی چیز کا ریکارڈ نہ رکھنا خطرناک ہے ، سلمان بٹ اپنے موکل کے دفاع کیلئے خطرناک دلائل دے رہے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ مشکل بات ہے کہ قطر میں سرمایہ کاری سے متعلق ریکارڈ بھی موجود نہیں جبکہ رقم قطر منتقلی کا ریکارڈ بھی موجود نہیں ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ قطری سرمایہ کاری سے متعلق امور کیسے طے پائے؟ جس پر سلمان بٹ نے کہا کہ اس زمانے میں کیش پر کام بہت کم ہوتا تھا۔