ایمزٹی وی (اسلام آباد)پارلیمانی اجلاس کے بعد پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ایک سال سے ریاست میں انتشار پھیلا ہوا ہے لیکن صدر ممنون حسین نے اپنے بار کی اس کا نوٹس نہیں لیا، صدر نے 4 سالوں میں ایک بار بھی پارلیمنٹ میں یا پارلیمنٹ سے باہر کسی بھی قومی معاملے پر بات نہیں کی، فاٹا کا معاملہ جو مکمل طور پر صدر کے اختیار میں آتا ہے لیکن انہوں نے کبھی بھی اس معاملے پر توجہ نہیں دی۔
خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ حکومت نے پہلے خود فاٹا کے مسئلے کے لئے پارلیمانی کمیٹی بنائی اور جب معاملہ پارلیمنٹ میں آیا تو اسے واپس لے کر فاٹا کے عوام کے ساتھ مذاق کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس سے پہلے بھی اداروں کے معاملات میں مداخلت کرتی رہی ہے، پہلے مشاہد اللہ خان اور پھر پرویز رشید اور طارق فاطمی کے معاملات ہمارے سامنے ہیں۔
نہال ہاشمی کی تقریر کے حوالے سے خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ حکومت نے اداروں کو جو دھمکی دینی تھی وہ دے دی، حکومت نے زمین تنگ کرنے کی بات کرنی تھی وہ بھی ہو گئی اور اب دکھاوے کے لئے ان سے استعفیٰ لے رہے ہیں، لوگ اندھے، لولے اور لنگڑے نہیں ہیں وہ ہم سے زیادہ سمجھدار ہیں۔
تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پوری قوم کو آج یہ دن دیکھنا پڑا جس کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا تھا کہ آج صدر پاکستان کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی ذمہ دار خود حکومت ہے، حکومت نے اپنے ہی صدر کے ساتھ جو کچھ کیا وہ ماضی میں کبھی نہیں دیکھا، حکومت نے اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپوزیشن کو احتجاج پر مجبور کیا اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت خود بھی نہیں چاہتی تھی کہ صدر بغیر کسی شور شرابے کے اپنی تقریر کریں۔
سراج الحق نے مزید کہا کہ صدر پاکستان نے اپنے چار سالوں میں کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے کوئی کام نہیں کیا اور نہ ہی فاٹا کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کیں، فاٹا کے عوام خیبر پختونخوا میں انضمام کے ساتھ صوبائی اسمبلی میں نمائندگی بھی چاہتے ہیں، اور فاٹا کے عوام اپنے آپ کو پاکستانی کہلوانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صدر کی موجودگی میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران نے عدالتوں کو دھمکیاں دینا شروع کیں، اس کا انہیں نوٹس لینا چاہیئے تھا۔ ہم معاشی سودی نظام کو تسلیم نہیں کرتے اور بجٹ کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ پاناما لیکس اور ڈان لیکس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئی، نہال ہاشمی نے نواز شریف کی زبان استعمال کی، اور اگر نواز شریف آئندہ دو سال تک حکومت میں رہے تو نہال ہاشمی کو بطور انعام گورنر سندھ بنا دیا جائے گا، نہال ہاشمی کو لائن وہیں سے ملی تھی لیکن وہ تھوڑا آگے چلے گئے تھے۔